13. ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سلام پھیرنے کے بعد مڑتے اور لوگوں کی طرف رخ کرلیتے۔ 14. طارق رحمہ اللہ بن شہاب کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب پلٹتے تو اپنا چہرہ لوگوں کی طرف کرلیتے۔ ان پندرہ احادیث و آثار میں ایک بھی ایسی روایت نہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ یا تابعین میں سے کوئی بھی نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرتا ہو۔ 2. فتاویٰ نذیریہ میں مذکور دوسری روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ہے : ’’ما من عبد بسط کفیہ دبر کل صلاۃ یقول اللھم إلـٰھی وإلـٰہ إبراھیم… الحدیث‘‘ ’’کوئی بھی شخص ہر نماز کے بعد ہاتھ پھیلا کر یہ کلمات کہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دونوں ہاتھوں کو نامراد نہیں پھیرتا۔‘‘ اس روایت کو ابنِ سنی نے اپنی کتاب عمل الیوم واللیلۃ میں درج کیا ہے، لیکن اس کے ایک راوی عبدالعزیز بن عبدالرحمن ہیں جن پر کلام کیا گیا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے اُنہیں غیر ثقہ کہا اور امام احمد رحمہ اللہ ان کی احادیث قبول نہیں کرتے تھے۔ (میزان الاعتدال:۲/۶۳۱) 3. تیسری روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعد قبلہ رخ بیٹھے ہوئے اپنے ہاتھ اُٹھائے اور کہا: اے اللہ! ولید بن الولید اور عیاش بن ربیعہ اور سلمہ بن ہشام اور کمزور مسلمانوں کونجات دے جو کسی حیلہ کی طاقت نہیں رکھتے اور کفار کے ہاتھ سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں پاتے۔ ( فتاویٰ نذیریہ: ۱/۵۶۵) یہ روایت ابن ابی حاتم نے بیان کی ہے اور اس کے راویوں میں ایک راوی علی بن زید ہیں جن کے بارے میں اکثر محدثین نے سخت جرح کی ہے اور ان کی حدیث قبول کرنے سے منع کیا ہے۔ (میزان الاعتدال:۳/۱۲۸) گویا نماز کے بعد مطلق دعاکرنا اِجابت کے اوقات میں سے ہے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتماعی طور پر نماز کے بعد دعا نہیں کی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے فرض نماز کو تو جماعت کے ساتھ پڑھایا لیکن نمازِ سنت انفرادی طور پر اور اکثر گھر میں ادا کی۔ سنت نمازوں میں تراویح کو تین دن جماعت سے ادا کیا تو اس کا جماعت سے ادا کرنا ثابت ہوگیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم انفرادی طور پر گھر میں قیام اللیل (تہجد) ادا کیا کرتے تھے اور کبھی کبھار حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ یا حضرت انس رضی اللہ عنہ کا |