کہا جاسکتا ہے کہ ہاتھ اُٹھانے کا ذکر نہ ہونا اس کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے، لیکن بعض صورتیں ایسی ہیں کہ اس میں ہاتھ کا اُٹھایا جانا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا جیسے حالت ِسجود میں دعا کرنا کہ سجدے میں ہاتھ کا زمین پر رکھے رہنا ضروری ہے۔ الوداعی دعا دیتے وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت بھی ملتی ہے جسے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی شخص کو اَلوداع کہتے تو اس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور اُسے اس وقت تک نہ چھوڑتے جب تک وہ آدمی خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ نہ چھوڑ دیتا اور آپ یہ کہتے:((أستودع ﷲ دینک وأمانتک وخواتیم عملک)) (سنن ابو داود:۲۶۰۰) اس تفصیل سے اتنا تو معلوم ہوا کہ ہر دعا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہاتھ اُٹھانا ثابت نہیں ہے اور اسی لئے جہاں شوافع اور اہل حدیث نمازِ وتر میں دعاے قنوت پڑھتے وقت ہاتھ اُٹھاتے ہیں وہاں احناف صرف اس وجہ سے ہاتھ اٹھا کر نہیں بلکہ ہاتھ باندھ کر دعا کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک ایسا کرنا ہی افضل ہے۔ ……………………… اب آئیے اصل مسئلہ کی طرف یعنی فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا۔ اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے ہم حدیث، اُصولِ فقہ اور فقہ تینوں طرح سے استدلال ملاحظہ کرتے ہیں ۔ (الف) حدیث کی روشنی میں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور ارشاد ہے: ((صلُّوا کما رأیتموني أصلي)) (صحیح بخاری:۶۳۱) ’’ایسے نماز پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔‘‘ تو جہاں نماز کی ابتدا سے قبل آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقتدیوں کی طرف منہ کرکے صفوں کو دیکھنا، صفوں کو سیدھا کرنا اور سیدھا کرنے کے لئے ’’سوّوا، تراصّوا‘‘ اور اس سے ملتے جلتے الفاظ کہنا آپ کے فعل سے ثابت ہے، اسی طرح ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ نماز کے فوراً بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا دستور رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جونہی سلام پھیرتے تو یہ تسبیحات پڑھا کرتے تھے : ((اَستغفرﷲ)) (تین مرتبہ) (صحیح مسلم:۵۹۱) |