Maktaba Wahhabi

51 - 62
وقاص کی وجہ سے ضعیف ہے۔ (رقم الحدیث:۱۴۹۲) ٭ لیکن کیا پہلی حدیث،دوسری دونوں احادیث کے ساتھ مل کر’حسن‘ درجہ تک نہیں پہنچ جاتی ہے؟ ا س شبہ کا جواب شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ یوں دیتے ہیں : ’’پہلی حدیث میں محمد بن کعب کے علاوہ ایک آدمی ایسا بھی ہے جس کا نام نامعلوم ہے۔ ابن ماجہ کے مطابق یہ شخص صالح بن حسان ہے، لیکن وہ انتہائی ضعیف راوی ہے۔ اس لئے یہ اضافہ منکر ہے اور مجھے ابھی تک اس کا اور کوئی شاہد نہیں ملا۔ اس لئے عز بن عبدالسلام یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ چہرہ پر سوائے جاہل[1] کے اور کوئی ہاتھ نہیں پھیرتا۔ ایسے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث بھی اس کی شاہد نہیں بن سکتی، کیونکہ اس میں ایک راوی ایسا ہے جس پر حدیث گھڑنے کا الزام ہے، ابوزرعہ کہتے ہیں : یہ حدیث منکر ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ۔ اور اسی طرح سائب بن یزید والی حدیث بھی شاہد نہیں بن سکتی کہ اس کے ایک راوی ابن لہیعہ ہیں جو ایک مجہول راوی حفص بن ہاشم سے روایت کرتے ہیں ۔ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں : اس سے صرف ابن لہیعہ روایت کرتے ہیں ، نہیں معلوم کہ وہ شخص کون ہے؟ ‘‘ (سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ:۲/۱۴۶) 3. اب یہ بھی ملاحظہ کرلیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کن موقعوں پر دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے اور کب نہیں اُٹھائے : 1. نمازِ استسقاء میں ہاتھ اٹھائے۔ 2. قنوت نازلہ کے موقع پر۔ 3. سورج گرہن کے موقع پر۔ 4. غزوئہ بدر کی رات (مدَّ یدہ ثم قال:…) 5. خلوت میں :حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا راوی ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوہاتھ اُٹھا کر دعا مانگتے دیکھا۔وہ کہہ رہے تھے کہ اے اللہ! میں تو صرف ایک بشر ہوں ، تو مجھے سزا نہ دینا، اگر میں مؤمنین میں سے کسی بھی شخص کو ایذا پہنچاؤں یا بُرا بھلا کہوں تو اس کی وجہ سے مجھے سزا نہ
Flag Counter