اس کے نبی کے قول کا باقی ماندہ حصہ ہے۔ ٭ اسی طرح آیت ﴿ تَحْمِلُہُ الْمَلاَئکۃ ﴾ کے بعد بھی ’قلی‘ کی علامت موجود ہے، حالانکہ یہاں ’صلی‘ کی علامت ہونی چاہئے، وجہ وہی ہے جو سابقہ آیت میں ہے۔ 4. پھر بعض ایک جیسے مقامات پر یہ فرق کیا گیا ہے کہ ایک جگہ تو علامت ِوقف موجود ہے لیکن اس جیسے دوسرے مقام پر وہ علامت موجود نہیں ہے، حالانکہ دونوں مقام پر ایک ہی اُصول پیش نظر رہنا چاہئے: ٭ مثال کے طور پرسورۃ الاعراف کی آیت نمبر۷۳﴿ھٰذِہٖ نَاقَۃُ اللّٰهِ لَکُمْ آیَۃ﴾ میں لفظ آیۃ پر تو’صلی‘کی علامت موجود ہے، لیکن سورۃ ہود کی آیت نمبر۶۳﴿وَیَا قَوْمِ ھذہٖ نَاقَۃُ اللّٰهِ لَکُمْ آیۃ﴾ پر یہ علامت موجود نہیں ، حالانکہ یہ آیت بھی اپنے سے پہلی آیت کے ساتھ متصل ہے، لہٰذا دونوں آیات میں اس علامت کاہوناچاہیے تھا۔ ٭ اسی طرح سورۃ النحل کی آیت نمبر۵۵ ﴿لِیَکْفُرُوا بِمَا آتَیْنَاھُمْ فَتَمَتَّعُوا﴾میں آتیناھم پر ’ج‘ کی علامت اور فتمتعوا پر ’صلی‘ کی علامت موجود ہے۔ لیکن سورۃ الروم کی آیت ﴿لِیَکْفُرُوا بِمَا آتَیْنَاھُمْ فَتَمَتَّعُوا﴾ پر یہ دونوں علامتیں موجوود نہیں ہیں ، حالانکہ ان دونوں آیات میں بظاہر کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کے علاوہ کچھ اور ملاحظات بھی ہیں ، لیکن اختصار کے پیش نظر صرف انہیں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ قرآنِ عظیم کا تواتر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حفظ اور کتابت دونوں ذرائع سے قرآنِ کریم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے حافظہ اور ان صحیفوں کو سامنے رکھ کر قرآنِ کریم کو مرتب کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھے گئے تھے۔ اور جمع قرآن کا یہ کام کبار اور جلیل القدر صحابہ کی زیرنگرانی تکمیل پایا ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے جمع کردہ قرآنِ کریم کی صحت پر تمام صحابہ کا اجماع تھا۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اِنہی صحائف سے مہاجرین و انصار میں سے حفاظ اور ثقہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہوں نے بالمشافہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآنِ کریم کو حاصل کیا تھا اور وہ عہد ابوبکر رضی اللہ عنہ میں جمع قرآن کی کمیٹی میں شامل تھے، کی زیرسرپرستی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اِنہی صحیفوں |