٭ سورۃ المائدۃ کی آخری آیت: ﴿وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ﴾ میں قدیر کی راء پر دو ضمے لگے ہوئے ہیں ۔ پھر اس سورہ کا آخر اگلی سورت کے ساتھ متصل ہے اور درمیان میں بسم اﷲ الرحمن الرحیم کا فاصلہ موجود نہیں ہے۔ حالانکہ روایت ِحفص کے تمام طرق میں دونوں سورتوں کے درمیان بسملہ کا فاصلہ موجود ہے۔ لہٰذا صحیح بات یہ ہے کہ یہاں راء کے اوپر ایک ضمہ ڈالا جائے اور بسملہ کی رعایت کرتے ہوئے اسے میم کے ساتھ اِدغام کرکے پڑھاجائے، کیونکہ تنوین جب باء کے ساتھ ملے تو میم سے بدل جاتی ہے، جیسا کہ یہ علم تجوید اور علم ضبط کا مسلمہ اُصول ہے۔ ٭ ایسے ہی سورۃ الفیل کی آخری آیت ﴿فَجَعَلَھُمْ کَعَصْفٍ مَّأکُوْلٍ﴾ میں ماکول کی لام کے نیچے دو زیر ڈالی گئی ہیں ۔ اسی طرح سورۃ قریش کی پہلی آیت: ﴿لایلف﴾ میں لام کے اوپر شد ہے۔ ایسا اسلئے ہوا ہے کہ سورۃ الفیل کے آخرکو اگلی سورہ کے ساتھ بسملہ سے قطع نظر کرتے ہوئے ملایاگیا ہے، حالانکہ یہاں بھی بسملہ کا لحاظ ضروری ہے جیسا کہ پہلے یہ اُصول گزرچکا ہے لہٰذا یہاں لام کے نیچے دو زیریں اور لایلف میں لام پر شد نہیں ہونی چاہئے۔ 3. وقف کی بعض علامات کو غیرمناسب مقامات پر لکھا گیا ہے۔مثال کے طور پر: ٭ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۱۲۹ ﴿وَیُزَکِّیھِم﴾ پر ’قلی‘ کی علامت موجود ہے، حالانکہ یہاں ’صلی‘ کی علامت ہونی چاہئے تھی، کیونکہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا فرمان ﴿اِنَّکَ اَنتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم﴾ ابراہیم و اسمٰعیل کی دعا کا باقی ماندہ حصہ ہے اور اسے پہلے حصہ سے الگ نہیں ہونا چاہئے۔ ٭ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ سورۃ البقرۃ کی آیت ﴿وَلَمْ یُؤتَ سَعَۃً مِنَ الْمَال﴾ کے بعد ’قلی‘ کی علامت موجود ہے حالانکہ یہاں ’ج‘ کی علامت موزوں تھی، جہاں ٹھہرنا اور نہ ٹھہرنا برابر ہوتا ہے کیونکہ ’قلی‘ کی علامت وہاں استعمال ہوتی ہے جہاں کلام مکمل ہوجائے اور مابعد کلام سے اس کا لفظی اور معنوی تعلق ختم ہوجائے۔ ٭ اسی آیت میں ﴿مَنْ یَّشَآئ﴾ کے بعد ’قلی‘ کی علامت موجود ہے حالانکہ یہاں ’صلی‘کی علامت ہونا چاہئے تھے، کیونکہ بعد میں اللہ تعالیٰ کا فرمان:﴿وَاﷲُ وَاسَعٌ عَلِیمٌ﴾ |