اس کے بعد تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کا دور آتا ہے۔ ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی ثابت نہیں ہے کہ اس کے دل میں رسم مصحف کو بدلنے اور اسے کسی دوسرے رسم پر لکھنے کا خیال بھی پیدا ہوا ہو، جو اس دور کے جدید رسم کے ساتھ ہم آہنگ ہو، بلکہ مختلف ادوار میں اسی رسم عثمانی کو ہی سب کے ہاں مقدس اور برتر حیثیت حاصل رہی۔ ان مختلف اَدوار میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود رہے جو قرآنِ کریم پڑھتے تھے، لیکن اسے حفظ نہیں کرتے تھے۔ ان لوگوں کا وجود بھی ائمہ کرام کو قواعد کے تقاضوں کے مطابق رسم عثمانی کوبدلنے پر آمادہ نہ کرسکا۔ جب اس رسم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شرفِ باریابی حاصل ہوچکا ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس پر اجماع ہوچکا، تابعین و تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین اس پرمتفق ہیں تو ایسی صورتِ حال میں اس سے انحراف اختیار کرنا قطعاً جائز نہیں ہے اور پھر اسے یہ حیثیت بھی حاصل ہے کہ یہ رسم ان بنیادی ارکان میں سے ہے جن پر قراء تِ سبعہ کی صحت کا دارومدار ہے۔ ائمہ دین اور کبار علماے اسلام کی آرا ٭ امام سخاوی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ امامِ دارِہجرت مالک بن انس سے کسی نے یہ سوال کیا: ’’أرأیت من استکتب مصحفًا، أترٰی أن یکتب علی ما استحدثہ الناس من الھجاء الیوم؟ فقال: لا أرٰی ذلک ولکن یکتب علی الکتبۃ الأولیٰ‘‘ ’’اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو مصحف کی کتابت کرتا ہے اور اسے آج کے جدید رسم الخط کے مطابق کتابت کرتا ہے؟تو اُنہوں نے فرمایا : میں اسے درست نہیں سمجھتا ، اسے پہلے رسم کے مطابق ہی مصحف کی کتابت کرنا چاہئے ۔‘‘ ٭ امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اس سلسلہ میں امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب برحق ہے، کیونکہ وہ پہلی حالت پر برقرار ہے جس کو ایک کے بعد دوسرے طبقہ نے سیکھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہی موقف زیادہ قرین قیاس ہے۔‘‘ ٭ ابوعمرو دانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’علماے اُمت میں سے اس سلسلہ میں کوئی بھی امام مالک کا مخالف نہیں ہے۔امام مالک رحمہ اللہ رحمہ اللہ سے کسی نے قرآنی حروف : واؤ، یاء اور الف کے متعلق سوال کیا کہ کیا مصحف کے اندر اِن حروف |