میں کوئی تبدیلی کی جاسکتی ہے؟ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا: نہیں ۔‘‘ آگے فرماتے ہیں : ’’اس سے امام مالک کی مراد وہ واؤ، یاء اور الف ہے جو رسم میں لکھے جاتے ہیں ، لیکن تلفظ میں نہیں آتے جیسے ﴿لَااَذْبَحَنَّہٗ﴾ اور ﴿بِاَیْیدٍ﴾ اور ﴿اُولُو﴾ وغیرہ۔‘‘ ٭ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’واؤ، الف، یا اور دیگر الفاظ میں مصحف ِعثمانی کے رسم الخط کی مخالفت حرا م ہے۔‘‘ ٭ امام نیسابوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ائمہ کرام کے نزدیک قرا، علما اور خطاطوں پر واجب ہے کہ وہ مصحف کو لکھتے ہوئے رسم عثمانی کی اتباع کریں ۔یہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کارسم ہے جو بلا شبہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امین اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب ِوحی تھے۔‘‘ ٭ امام بیہقی رحمہ اللہ شعب الایمان میں لکھتے ہیں : ’’جو شخص بھی مصحف لکھے، اسے چاہئے کہ اس رسم الخط کا التزام کرے جس کے مطابق صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ مصاحف ِ(عثمانی) لکھے تھے اور اس بارے میں ان کی مخالفت نہ کرے۔ اور جو کچھ اُنہوں نے لکھا ہے، اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کرے، کیونکہ وہ لوگ ہمارے سے علم میں برتر، زبان کے سچے، دل کے نہایت کھرے اور امانت و دیانت میں اتنے عظیم تھے کہ ہم اپنے تئیں ان پر رشک کا سوچ بھی نہیں سکتے۔‘‘ ٭ امام جعبري رحمہ اللہ اور دیگر علما نے اس بات پر ائمہ اربعہ کا اجماع نقل کیا ہے کہ رسم مصحف کی اتباع واجب ہے۔ دلائل کی روشنی میں جس موقف پر دل سب سے زیادہ مطمئن ہوتا ہے، وہ یہی تیسرا قول ہے اور اس کی ترجیح کی متعدد وجوہات ہیں : 1. اس قول کے حاملین نے اپنے موقف کی تائید میں جو دلائل پیش کئے ہیں ، وہ مصاحف کی کتابت میں رسم عثمانی کے التزام کی فرضیت پر صریح اور واضح ہیں ۔ 2. جدید قواعد ِاملا ہر دور اور ہرقوم میں تنقیح اور تغیر و تبدل سے دوچار رہے ہیں ۔ قرآنِ مجید کا تقدس اور اس کی حفاظت کی ہماری ذمہ داری ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم اس کے رسم اور |