کیاہے، کیا اس کے مطابق مصحف کو لکھا جاسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں ، پہلے رسم کے مطابق لکھنا ہی ضروری ہے۔‘‘ البُرہان کے مصنف امام زرکشی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’قرنِ اوّل میں علم تروتازہ اور زندہ تھا، لیکن اب التباس کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے، لہٰذا شیخ عزالدین بن عبدالسلام نے فرمایا ہے کہ ائمہ کی اصطلاح میں رسم اوّل کے مطابق مصحف کو لکھنا جائز نہیں ہے اس لئے کہ اَن پڑھ لوگوں کی طرف سے قرآن مجید میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوجائے۔‘‘__ مزید لکھتے ہیں : ’’ رسم اوّل کے مطابق مصحف کی کتابت کو مطلقاً ناجائز قرار دینا بھی درست نہیں ہے ۔وجہ یہ ہے کہ اس سے سابقہ علمی میراث کہیں مٹ نہ جائے اور جاہلوں کی جہالت کی خاطر متقدمین کی محکم علمی روایت کہیں متروک نہ ہوجائے۔ اور زمین اللہ کے لئے حجت قائم کرنے والے سے خالی نہیں ہوسکتی۔‘‘ تیسرا موقف اور اس کے دلائل کتابت ِمصحف میں رسم عثمانی کا التزام بہر حال ضروری ہے۔ سلف اور خلف میں سے جمہور علما نے اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کتاب تھی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی لکھتے تھے اور اس میں قرآنِ مجید کو اسی خاص رسم کے مطابق لکھا گیا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفیقِ اعلیٰ کے پاس چلے گئے تو اس وقت قرآنِ کریم اسی رسم کے مطابق لکھا ہوا تھا اور اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مسند ِخلافت پر فائز ہوئے تو اُنہوں نے بھی پورے قرآنِ مجید کو اسی خاص رسم کے مطابق لکھا۔ اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو بھی تمام نئے مصاحف ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صحیفوں کو سامنے رکھ کر نقل کئے گئے اور اُنہوں نے تمام مصاحف اس رسم کے مطابق تحریر کئے۔ پھر اُنہوں نے ان مصاحف کو تمام بلادِ اسلامیہ میں پھیلا دیا تاکہ وہ اُمت ِمسلمہ کے لئے امام اور مرجع کی حیثیت اختیار کرسکیں ۔اور پھر کسی صحابی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و عثمان رضی اللہ عنہ پر اعتراض نہیں کیا، بلکہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے اس کارنامہ کی تائید کی۔ |