چنانچہ ان کے لئے غلطیوں سے مبرابالکل صحیح تلاوت کرنا ممکن نہیں رہتا، لہٰذا وہ تلاوتِ قرآن کے اس اجروثواب سے محروم رہ جاتے ہیں جس کا اللہ کی طرف سے وعدہ کیا گیا ہے ۔نیز صحیح قراء ت نہ کرنے کی صورت میں گناہ میں واقع ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ لہٰذا لوگوں کی آسانی، اُنہیں مشقت و التباس سے بچانے اور صحیح قراء ت کی سہولت فراہم کرنے کے لئے مصحف کو اِملا کے عام قواعد کے مطابق تحریر کرنا جائز ہے۔ 3. نیزکتاب اللہ، سنت ِمطہرہ، اجماعِ اُمت اور قیاسِ شرعی کی کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ مصحف کو کسی معین رسم اور مخصوص طریقہ پر لکھنا ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث میں یہ بیان نہیں ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتبینِ وحی میں سے کسی کو کتابت ِ وحی کے وقت کسی مخصوص رسم الخط کے مطابق لکھنے کا حکم دیا ہو یا کسی مخصوص شکل میں کتابت ِوحی سے منع کیا ہو۔ دوسرا موقف اور اس کے دلائل عوام الناس کے لئے مصحف کو اِملا کے عام قواعد کے مطابق تحریر کرنا ہی ضروری ہے، ان کے لئے رسم عثمانی کے مطابق کتابت جائز نہیں ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ رسمِ عثمانی کے مطابق مصحف کی کتابت عوام الناس کے لئے مشقت اور التباس کا باعث ہے اور یہ چیز کسی لفظ کی کمی بیشی کی وجہ سے کتاب اللہ میں تحریف کا سبب بھی بن سکتی ہے، لہٰذا عوام الناس کے لئے مصحف کی کتابت رسم عثمانی کے مطابق نہیں ہونی چاہئے۔ البتہ سلف صالحین کی یادگار ہونے کے ناطے رسم عثمانی کی حفاظت بہرحال ضروری ہے۔جاہلوں کی جہالت کی خاطر ہم اس سے ہرگز چشم پوشی نہیں کرسکتے اور ہر دور میں علماے فن رسم عثمانی کی حفاظت کرتے آ رہے ہیں ۔چنانچہ التِّبیَان کے مصنف لکھتے ہیں : ’’جہاں تک جدید عربی اِملا میں مصحف کو لکھنے کا تعلق ہے تو چونکہ اس میں التباس کا خدشہ نہیں ہے، لہٰذا اہل مشرق (ایشیائی ممالک) میں رسم عثمانی سے عملاً خلاف ورزی کارواج ہوگیا ہے۔ اور اہل مغرب میں رسم عثمانی کا التزام اس وجہ سے پایا جاتا ہے کہ اس کے بارے میں امام مالک رحمہ اللہ کا یہ واضح قول ثابت ہے۔ ان سے کسی نے پوچھا: لوگوں نے جو نیا طریقہ ٔ اِملا ایجاد |