Maktaba Wahhabi

87 - 111
والے اور نہ مانگنے والے محتاج کا حصہ ہوتا تھا۔‘‘(الذاریات: ۱۵تا۱۹) ٭ دوسرے مقام پر فرمایاکہ جو دولت مند اپنی دولت کا ایک حصہ حاجت مندوں کی کفالت پر خرچ کرتے ہیں ، وہ اعزاز و اِکرام کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے : ﴿وَالَّذِیْنَ فِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ ٭ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ ۔۔۔ اُوْلٰئِکَ فِیْ جَنٰتٍ مُّکْرَمُوْنَ﴾ (المعارج : ۲۴،۲۵، ۳۵) ’’اور جن کے مال میں حصہ مقرر ہے، مانگنے والے کا بھی اور نہ مانگنے والے محتاج کا بھی … وہی لوگ جنت کے باغوں میں عزت و اکرام کے ساتھ رہیں گے۔‘‘ ٭ ارشاد ہوا کہ مسلمانوں کو جہاں اپنے والدین اور دوسرے عزیز و اقارب پر اپنا مال خرچ کرنا ہے، وہاں یتیموں ، مسکینوں اور حاجت مندوں مسافروں کو بھول نہیں جانا بلکہ اُن پر بھی اپنے مال کا کچھ حصہ ضرور صرف کرنا ہے : ﴿یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْم﴾ ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہیں کہ اپنا مال کہاں خر چ کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیں کہ جو مال خرچ کرو وہ والدین، قریبی رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو، اور تم جو بھلائی بھی کرو گے، اللہ اُسے جانتا ہے۔‘‘ (البقرۃ : ۲۱۵) ٭ یہ بھی فرمایا کہ اپنی ضروریات سے زائد سارے کا سارا مال غریبوں اور ناداروں پر صَرف کردینا چاہئے : ﴿وَیَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ … ﴾ (البقرۃ :۲۱۹) ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہیں کہ کون سا مال خرچ کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیں کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو۔‘‘ ٭ مالِ زکوٰۃ کے مصارف میں سب سے پہلا حصہ غریبوں اور حاجت مندوں ہی کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے : ﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَ الْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا وَ الْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہ ِوَ اللّٰہُ
Flag Counter