اگر بات صرف اسی قدر ہو کہ دورِحاضرمیں وضع کئے جانے والے اُصول وقوانین، صدیوں قبل تشکیل شدہ قوانین سے اس لئے بہتر ہیں کہ وہ جدیدحالات و واقعات کو پیش نظر رکھ کر ترتیب دیے جاتے ہیں تو ہم بھی ’جدت پسند‘ حضرات کی فہرست میں نام لکھوانے کو اپنی خوش بختی تصور کرتے، لیکن اگر قدیم قوانین کو عطاکرنے والا خود ربّ الناس ہو اور وہ ان قوانین کو مقرر کرنے کے بعد یہ کہہ کر ان کے دائمی نافذ العمل ہونے کی طرف اشارہ کردے : ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدۃ :۳) ’’آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے اسلام کو بطورِ دین پسند کرلیا۔‘‘ لہٰذاجدید کو قدیم کے مقابلے میں افضل و برتر قرار دینا تو درکنار، ا ن کو موازنہ کے لئے دو پلڑوں میں رکھنا ہی ایسے ہے جیسے آسمان کے مقابلے میں زمین کو لانے کی ناکام کوشش کی جائے : ؎ چہ نسبت خاک را بہ عالم پاک! لیکن مذکورہ بالا ساری بحث بھی اسی وقت پیدا ہوگی جب ہم یہ فرض کریں کہ وضعی قوانین کے مقابلے میں شرعی قوانین قدیم ہیں جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ یورپ کے بیشتر ضوابط و قوانین کے بالمقابل شریعت کے قوانین بھی قدیم نہیں بلکہ جدید ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ کے قوانین کی بنا ’رومن لا‘ پر رکھی گئی ہے۔ ان کی اُٹھان رومن قانون کے نصوص و قواعد اور حدود اربعہ میں ہوئی ہے، اِلا یہ کہ کسی شدید ضرورت کی بنا پر اس راستے سے ہٹنا پڑے؛ اس بنا پر یہ بات بالکل واضح ہے کہ یورپی قوانین کے مقابلے میں اسلامی قوانین جدید تر ہیں نہ کہ قدیم۔ کیونکہ رومن لاء کی تشکیل ’نزولِ قرآن و سنت‘ سے صدیوں قبل ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ اگر اس بات پر غور کیا جائے کہ جو حضرات اس وقت الٰہی قوانین کے متعلق بظاہر انتہائی خوبصورت انداز میں یہ راگ اَلاپ رہے ہیں کہ چودہ سو سال قبل کا فرسودہ نظام موجودہ دور کے تقاضوں سے مناسبت نہیں رکھتا تو ایسے لوگوں کی دو اقسام ہیں : ایک گروہ تو ایسے حضرات کا ہے جنہیں نہ تو شریعت ِاسلامیہ کی مہارت حاصل ہے اور نہ ہی قوانینِ وضعی پر جبکہ دوسرے گروہ میں ایسے تعلیم یافتہ حضرات شامل ہیں جو اگرچہ قوانینِ وضعی پر تومکمل مہارت |