﴿ وَإِذَا دُعُوا إِلَى اللَّـهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم مُّعْرِضُونَ ﴿٤٨﴾ وَإِن يَكُن لَّهُمُ الْحَقُّ يَأْتُوا إِلَيْهِ مُذْعِنِينَ ﴿٤٩﴾ أَفِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ أَمِ ارْتَابُوا أَمْ يَخَافُونَ أَن يَحِيفَ اللَّـهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُ ۚ بَلْ أُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿٥٠﴾ إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّـهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ ( النور:۴۸ تا۵۱ ) ’’اور جب ان کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتاہے تاکہ ( رسول اللہ ) ان کا قضیہ چکادیں تو ان میں سے ایک فرقہ منہ پھیر لیتاہے اور اگر( ان کا) حق نکلتا ہو تو ان کی طرف مطیع ہوکر چلے آتے ہیں ۔ کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے یا ( یہ ) شک میں ہیں یا ان کو یہ خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان کے حق میں ظلم کریں گے؟ (نہیں ) بلکہ یہ خود ظالم ہیں ، مؤمنوں کی تو یہ بات ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ وہ ان میں فیصلہ کریں تو کہیں کہ ہم نے ( حکم ) سن لیا اور مان لیا یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘ یہاں ایمان اور نفاق کے درمیان حد ِ فاصل بیان ہوئی ہے، یعنی امام الانبیا کے فیصلوں کے بارے میں بحث کرنا نفاق کی علامت ہے، جب کہ امام الانبیا کے فیصلوں کوسو فیصد تسلیم کرلینا ایمان کی علامت ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فیصل اور قاضی بھی ہیں ، حَکم اور حاکم بھی۔ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکومت بھی ملی ہے اور دین بھی، اور حکومت بھی ایسی محبت و احترام سے کہ جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ آپ جانتے ہیں کہ اہل مدینہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پیش کش کی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے پاس تشریف لایئے اور ہماری حکومت سنبھال لیجیے ؛ حالانکہ اس حکومت کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا تھا،نہ ہی اس کی کوشش کی گئی اورنہ کہیں کسی سے ووٹ مانگے اور نہ ہی اس کے لئے درخواست دی گئی بلکہ جنہوں نے حکومت کروانی تھی، وہ خود چل کر آپ کے پاس درخواست لے کر آئے۔ بیعت ِعقبہ اولیٰ وثانیہ میں مدینہ سے مکہ آئے، کہا کہ آیئے تشریف لائیے اور حکومت سنبھال لیجئے۔ گویا امام الانبیا کو دینی زندگی کے کسی شعبہ اور کسی پہلوسے آپ دیکھیں گے تو آپ کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی نئی حیثیت ہی نظر آئے گی۔ قرآن نے امام الانبیا کی اتنی حیثیتیں بتا |