بطور رسول منصبی فرض ہے۔امام الانبیا معلم کائنات ہیں اور قرآن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا یوں مذکور ہے : ﴿ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُولاً مِنْہُمْ یَتلُوْ عَلَیْہِمْ آیَاتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ إنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ﴾ (البقرۃ:۱۲۹) ’’ اے ہمارے ربّ! ان لوگوں میں اِنہیں میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت کرے اور اُنہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے اور ان کی صفائی کرے۔ بے شک تو غالب وداناہے۔ ‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورِ معلم ِکتاب وحکمت اور تزکیہ کرنے والے مربی کی حیثیت سے متعارف کرایاہے۔ اللہ ربّ العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حیثیت کو قرآنِ کریم میں چار مقامات پر ذکر کیا ہے، جس سے معلوم ہوتاہے کہ امام الانبیا کی یہ حیثیت اتنی واضح ہے کہ قرآنِ کریم نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت کے بغیر پڑھا جاسکتاہے اور نہ آپ کی تشریحات کے بغیر سمجھا جاسکتاہے۔ قرآن کریم سے جو حکمت ودانائی کے عملی پہلولئے جا سکتے ہیں ، امام الانبیا کی تعلیم کے بغیر وہ بھی حاصل نہیں کئے جاسکتے، اور دل ودماغ کی طہارت بھی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ کو چھوڑ کر نہیں کی جاسکتی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جہاں اللہ کے نبی ہیں ، وہیں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ حکمت ودانائی (جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی )کے معلم اور دل کی صفائی کرنے والے بھی ہیں اور یہ صرف امام الانبیا کی ایک حیثیت ہے جس کے چار پہلوہیں ، اور ان کو چار دفعہ قرآنِ کریم میں بیان کیا گیاہے۔ ملاحظہ ہو : 1. سورۃ البقرۃ :۱۲۹ 2. البقرۃ :۱۵۱ 3. آل عمرانُ :۱۶۴ 4. الجمعہ :۲ اس سے اندازہ کرلیجیے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بطورِ معلم کیا مقام ومرتبہ ہے۔ کیا ایسی مبارک ذات کے بارے میں کہا جاسکتاہے کہ یہ صرف چٹھی رساں ہیں ؟ ایسی عظیم ہستی اور اس کے بارے میں یہ کہنا …جبکہ آپ کے بارے میں اللہ عزوجل نے اتنا کچھ بتا دیاہے… کہ |