باشندے مسلمانوں کی اس کمزوری سے فائدہ اُٹھا کر ان پر چڑھ دوڑے پھر یا تومسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور جو باقی بچ گئے، ان کو جلا وطن کردیا گیا اور ایک دفعہ مسلمان نسل کی جڑ اکھیڑ دی گئی۔ ٭ فرانسیسی مستشرق اٹینی ڈینر(Etienne Denier)لکھتا ہے : ’’مسلمانوں کا معاملہ اس کے عین برعکس ہے جو لوگوں نے سمجھا ہے۔ انہوں نے حدودِ حجاز سے باہر لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانے کے لئے کبھی قوت کا استعمال نہیں کیا۔ ہسپانیہ میں عیسائیوں کا وجود اس امر کی بین دلیل ہے۔ وہ مسلمانوں کے زیر قبضہ علاقوں میں آٹھ سو سال کا طویل عرصہ اپنے دین پر امن و سکون سے زندگی گزارتے رہے۔ قرطبہ میں متعدد عیسائی نہایت اہم اور اعلیٰ مناصب پر فائز رہے، لیکن جونہی ان علاقوں کی حکومت ان کے ہاتھ لگی تو انہوں نے ارضِ اندلس سے مسلمانوں کا وجود مٹانے کا تہیہ کرلیا۔‘‘[1] ٭ لوتھرپ سٹیڈرڈ(Lothrop Stoddard) نے عثمانی وزیر کا ایک دردناک مگر فکرانگیز بیان نقل کیا ہے جو اُس نے ایک یورپین عہدہ دار کے گوش گزار کیا تھا: ’’ہم ترک، عرب اور دیگر مسلمانوں نے جس قدر بھی مذہبی تعصب کا مظاہرہ کیا،لیکن وہ اس حد تک کبھی نہیں بڑھا کہ ہم اپنے دشمنوں کو نیست و نابود کردیں اور جس وقت ہم فی الواقع ان کے استیصال کی قوت رکھتے تھے اس وقت بھی ایسا کوئی خیال ہمارے دلوں میں پیدا نہیں ہوا اور اگر کبھی ہمارے کسی حکمران نے ایسا کرنے کا ارادہ کیا، جیسا کہ عثمانی خلیفہ سلیم اوّل کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا تھا توملت ِاسلامیہ اس کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہو گئی تھی اور شیخ الاسلام نے اس کو کہا تھا: بجز جزیہ کے یہود و نصاریٰ پر تمہارا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اُنہیں ان کے وطن سے بے دخل کرنے کا قطعا تجھے کوئی حق حاصل نہیں ہے ۔ اس پر سلطان نے شریعت کے سامنے سرتسلیم خم کردیااوراپنا ارادہ ترک کردیا۔ یہود و نصاریٰ، صابیوں ، سامریوں اور مجوسیوں کی بہت بڑی تعداد صدیو ں تک ہمارے اندر بستی رہی۔ اُنہیں وہی حقوق حاصل تھے جو مسلمانوں کو حاصل تھے اور ان پر وہی فرائض لاگو تھے جو مسلمانوں پر تھے۔ لیکن تم اے یورپین لوگو! تم اپنے اندر ایک مسلمان کو بھی گوارا نہ کرسکے، تم نے وہاں رہنے کے لئے عیسائی بننے کی شرط عائد کردی۔ تمہیں یاد ہے کہ ہسپانیہ میں کروڑوں مسلمان آباد تھے، اٹلی کے شمال |