اور جنوبی فرانس میں لاکھوں مسلمان بستے تھے۔ وہ صدیوں سے ان علاقوں میں رہتے آرہے تھے، لیکن تم نے اُنہیں اس طرح نیست و نابود کردیا کہ دین اسلام کا ماننے والا ایک فرد بھی ان علاقوں میں باقی نہ رہا۔ میں نے ہسپانیہ کا چپہ چپہ گھوما ہے،مجھے وہاں کوئی ایک قبر بھی ایسی نہیں ملی جس کے بارے میں معروف ہو کہ وہ مسلمان کی قبر ہے۔‘‘[1] مولانا اکرم اللہ ساجد کیلانی کی ناگہانی وفات موت ہر ذی نفس کا مقدر اور قدرت کا مقرر کردہ اٹل قانون ہے جس سے کسی کو مفر نہیں مگر کچھ لوگ ایسی خدمات انجام دے جاتے ہیں کہ زمانہ مدتوں اُنہیں یاد رکھتا اوران کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔ مولانا اکرام اللہ ساجد کیلانی ۳۱/اگست ۲۰۰۶ء کی رات درسِ قرآن دے کر موٹرسائیکل پرکیلیانوالہ واپس آرہے تھے کہ ایک حادثے میں ان کو سرپر شدید چوٹ آئی اور زخموں کی شدت کی بنا پر آپ جانبر نہ ہوسکے۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون! مولانا کا نام قارئین محدث کے لئے نیا نہیں ہے، آپ ایک محنتی عالم اور بلند پایہ مصنف تھے۔ آپ نے اپنی دینی تعلیم مسجد ِقدس چوک دالگراں میں مدیر اعلیٰ محدث حافظ عبد الرحمن مدنی سے حاصل کی اور بعد میں صحافتی میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ ماہنامہ ’محدث ‘لاہور کے آپ کم وبیش ۱۰ برس( ۱۹۷۴ء تا ۱۹۷۶ء، ۱۹۸۱ تا ۱۹۸۸ء) مدیر معاون رہے۔ آپ کے جاندار اداریوں کا قارئین نہ صرف شدت سے انتظار کیا کرتے بلکہ اشاعت کے بعد عرصہ تک ان کا تذکرہ لوگوں کی زبانوں پر رہتا۔ انہی سالوں میں جامعہ لاہور الاسلامیہ کے مالی معاملات کی ذمہ داری بھی آپ کے سپرد رہی۔ آپ کو ماہنامہ ’ترجمان الحدیث‘ لاہور اور ماہنامہ ’حرمین‘ جہلم میں بھی ادارتی فرائض انجام دینے کا موقعہ ملا۔ مولانا کے بیسیوں مضامین مختلف اہل حدیث رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔ موصوف تحریر کے ساتھ ساتھ خطابت کا بھی عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ آپ نے اپنے گاؤں میں ایک بڑی مسجد تعمیر کروائی اور آپ طالبات کے ایک مدرسہ کے انتظام کے علاوہ اسی مسجد میں مستقل خطابت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اپنے گاؤں اور آس پاس کے دیہات میں روزانہ بچیوں کے گھروں میں جاکر اُنہیں ترجمہ قرآن پڑھاتے۔ گذشتہ رمضان میں آپ کے دروسِ قرآن کا شمار کیا گیا تو ان کی تعداد ۲۲ کے قریب نکلی موصوف نہایت ملنسار اور صاف گو انسان تھے ۔کئی دفعہ ان سے ملاقات کا موقعہ ملا، نہایت خندہ پیشانی اور محبت و شفقت سے پیش آتے۔ آپ تین سال سے مرکزی جمعیت اہل حدیث کی طرف سے تحصیل وزیر آباد کے امیر بھی تھے اور نہایت تندہی سے جماعتی خدمات انجام دے رہے تھے ۔ حال ہی میں ’القدس‘ کے نام سے ایک ماہوار رسالہ کا آغاز کیاتھاجس کی ادارت آپ کے فرزند انعام اللہ آصف کے سپرد تھی۔ ابھی پہلا شمارہ ہی نکلا تھا کہ پیغامِ اجل آپہنچا۔اللہ تعالیٰ ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور اُنہیں مولانا کے دعوتِ دین کے مشن کو جاری رکھنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین! (محمد اسلم صدیق) جناب انعام اللہ آصف نے موصوف کے تمام مقالات کو کچھ عرصہ قبل جمع کیا تھا اور اب یہ کتاب اشاعتی مراحل میں ہے۔ اُنہوں نے آپ کی خدمات پر ’القدس‘ کا ایک خصوصی شمارہ شائع کرنے کا پروگرام بھی بنایا ہے۔مولانا اکرام اللہ ساجد کے محبین اور ساتھیوں سے قلمی تعاون کی درخواست ہے۔ |