نقد و نظر محمد عطاء اللہ صدیقی قائد اعظم اور تھیوکریسی موجودہ دورِ حکومت میں بالخصوص ’پاکستان میں اسلام یا سیکولرازم؟‘ کو مختلف پہلوؤں سے زیر بحث لایا جارہا ہے۔ وطن عزیز میں بعض لوگ ایسے ہیں جو قیامِ پاکستان کی اساس اور نظریۂ پاکستان سے ہی منحرف ہیں ۔ اپنے مزعومہ مقاصد کے لئے وہ تواتر سے قائد اعظم کے بیانات کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کرتے رہتے ہیں ۔ ذیل میں اس حوالے سے قائد اعظم کے بیانات اور موقف کا تذکرہ کیا گیا ہے جس سے مقصود محض تاریخی حقائق اور امرواقعہ کی درستگی ہے۔ جہاں تک نظریاتی اور اُصولی بنیادوں پر اسلام کے نظریۂ ریاست وسیاست کا تعلق ہے تو یہ اس مضمون کے موضوع سے خارج ہے۔ (ح م) قائداعظم نے حصولِ پاکستان کی جدوجہد کے دوران اور قیامِ پاکستان کے بعد بارہا وضاحت فرمائی کہ پاکستان کے نام سے معرضِ وجود میں آنے والی ریاست کا طرز ِ حکومت ’تھیوکریسی‘ پر مبنی نہیں ہوگا۔ اُنہیں اپنے بیانات و تقاریر میں اس طرح کی وضاحت یا ’تھیوکریسی سے بریت‘ کے اعلان کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ نہایت اہم سوال ہے مگر قائداعظم کے ان بیانات سے ان کے تصورِ ریاست کے بارے میں استنباط فرمانے والے دانشوروں میں سے کسی نے اس بنیادی سوال کا شافی جواب دینا تو ایک طرف، اس پر غوروفکر کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ پاکستان کے سیکولر دانشوروں نے ’تھیوکریسی‘کے ضمن میں قائداعظم کے بیانات سے بلااستثنا یہ نتیجہ اخذ فرمایا ہے کہ وہ (قائداعظم) سیکولر ریاست قائم فرمانا چاہتے تھے۔ یہ حضرات قائداعظم کے تھیوکریسی کی مخالفت پر مبنی بیانات سے بے حد اعتماد کے ساتھ یہ نتیجہ بھی نکالتے ہیں کہ وہ اسلامی ریاست کے مخالف تھے۔ ہمارے خیال میں ان کا یہ استنباط واستخراج نہایت مغالطہ انگیز ہے۔ قائداعظم بلاشبہ ’تھیوکریسی‘ کے حامی نہیں تھے، مگر ان کا کوئی بھی بیان سیکولر ریاست کی تائید یا اسلامی ریاست کی مخالفت پر مبنی نہیں ہے۔ ہماری اس رائے کی صداقت اور حقیقت اس وقت تک کھل کر سامنے نہیں آسکتی جب تک کہ درج |