ذیل سوالات اور اشکالات کی وضاحت پیش نہ کردی جائے … 1. ’تھیوکریسی‘ کا لغوی اور اصطلاحی مفہوم کیا ہے؟ مغرب کے سیاسی لٹریچر میں اس سے عام طور پر کیامراد لیا جاتا ہے؟ 2. ۱۹۴۰ء کے عشرے میں ہندوستان کے سیاستدان یا دانشور ’تھیوکریسی‘ کا ذکر کن معنوں میں کرتے تھے؟ 3. قائداعظم کے ذہن میں تھیوکریسی کا مفہوم کیا تھا؟ 4. قائداعظم نے اپنی جن تقاریر، بیانات اور انٹرویوز میں ’تھیوکریسی‘ کے متعلق اظہارِ خیال کیا، ان کا سیاق و سباق اور حقیقی پس منظر کیا ہے؟ 5. قائداعظم کے اسلامی ریاست کے قیام اور تھیوکریسی کی مخالفت پر مبنی بیانات میں تطبیق کیسے دی جاسکتی ہے؟ قائداعظم کے تھیوکریسی کے متعلق بیانات کا ان کے دو قومی نظریہ، قراردادِ لاہور اور اسلام کے نام پر ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست کے پرجوش مطالبہ سے گہرا تعلق ہے۔ ۲۳/مارچ۱۹۴۰ء کو جب اُنہوں نے لاہور کے منٹو پارک میں دو قومی نظریہ کی بنیاد پر مسلمانوں کے لئے الگ خطہ زمین کامطالبہ کیا اور لاکھوں مسلمانوں کی موجودگی میں قرار دادِ لاہور پاس کرائی تو ہندوستان کا سیاسی منظر یک لخت بدل گیا۔ ہندو پریس نے قرار دادِ لاہور کو طنزاً ’قراردادِ پاکستان‘ کہا۔ گاندھی، نہرو اور دیگر چوٹی کے ہندو رہنماؤں نے قائداعظم کے علیحدہ وطن کے مطالبہ کی شدید مخالفت کی۔ ہندوستان کے سیکولر اور کمیونسٹ دانشوروں نے محض مذہب کی بنیاد پر علیحدہ ریاست کے قیام کے مطالبہ کو دقیانوسی، رجعت پسندی اورفرقہ وارانہ ذہنیت پر مبنی قرار دیا۔ ہندو رہنماؤں نے تحریر و تقریر میں تصورِ پاکستان کی مخالفت میں رائے عامہ کو بیدار کرنا شروع کردیا۔ اُنہوں نے قائداعظم اور پاکستان کے خلاف اپنے مذموم پروپیگنڈہ میں جن دلائل کو بار بار دہرایا، ان میں ایک دلیل یہ تھی کہ قائداعظم پاکستان کا نام لے کر ایک تھیوکریٹک ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں غیر مسلم اقلیتوں کو اچھوت کا درجہ حاصل ہوگا اور |