ان سے نہایت درجہ امتیازی سلوک ہوگا، انہیں کسی قسم کے سیاسی یا معاشی حقوق حاصل نہیں ہوں گے، وہ محض تیسرے درجہ کے شہری بن کر رہنے پر مجبور ہوں گے۔ وہاں سخت گیر ملاؤں کی حکومت ہوگی جو اُن کا جینا حرام کردیں گے۔ کانگرسی رہنماؤں کے اس مذموم پراپیگنڈہ کو یورپ کے اخبارات اور دانشوروں میں بے حد پذیرائی ملی۔ یورپ کئی صدیوں سے کلیسائی پیشوائیت کوشکست دے کر سیکولر ریاست کو عملاً نافذ کرچکا تھا۔ وہاں کے لبرل اور روشن خیال دانشور ہر اس سیاسی فلسفہ کے شدت سے مخالف تھے جس میں مذہب کی بنیاد پر ریاست کے قیام کی گنجائش موجود ہو۔ گذشتہ کئی صدیوں کے دوران عالم اسلام اور یورپ کے درمیان برپا سیاسی کشمکش کی و جہ سے ان کے ذہن اسلام کے خلاف سخت تعصب کا شکار تھے۔ وہ اسلامی ریاست اور تھیوکریسی کے درمیان اُصولی فرق کے متعلق بالکل بے بہرہ تھے۔ قائداعظم جیسے مغرب کے اداروں سے تعلیم یافتہ مسلمان رہنما نے جب اسلام کے نام پر پاکستان کا مطالبہ پیش کیا تو ہندوستان اور برطانیہ کے پریس نے اسے تھیوکریسی کے احیا کا مطالبہ قرار دیتے ہوئے پروپیگنڈہ کا طومار باندھ دیا۔ قائداعظم کی پوزیشن بے حد نازک تھی، وہ کسی طریقے سے یورپی تاریخ میں مذکور تھیوکریسی کے تصور کوقبول بھی نہیں کرسکتے تھے اور اسلام کے نام پر قیامِ پاکستان کے مطالبہ سے دستبردار ہونے کو تیار بھی نہ تھے۔ ان حالات میں اُنہیں ایک سیاستدان کے ساتھ ایک فلسفی اور متکلم کا کرداربھی ادا کرنا پڑا۔ اُنہوں نے بارہا تھیوکریسی اور اسلامی ریاست کے مابین اُصولی فرق کو بیان فرمایا اور بے حد مُبلّغانہ اور مدبرانہ انداز میں اسلام کے رواداری اور انسانی مساوات کے اعلیٰ اصولوں کی وضاحت فرماتے ہوئے باربار یقین دہانی کرائی کہ پاکستان بن جانے کے بعد غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی نہیں کی جائے گی۔ اُنہوں نے تاریخ اسلام کے روشن ابواب کا حوالہ دے کر ثابت کیاکہ مسلمان حکمرانوں نے غیر مسلم رعایا کے ساتھ کبھی ایسا سلوک نہیں کیاجس کا خوف دلاکر پاکستان دشمن عناصر لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں ۔ یہ بات نہایت اہم ہے کہ تھیوکریسی کے متعلق قائداعظم کا جو پہلا بیان ریکارڈ پر ہے، وہ قرار دادِ لاہور کے پیش ہونے کے بعد کا ہے۔ اس ضمن میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام |