فقہ واجتہاد ڈاکٹر صالح بن حسین العاید٭ مترجم: محمد اسلم صدیق بلادِ اسلامیہ میں غیر مسلموں کے حقوق چند صدیوں سے ’ریاست‘ کے ادارہ نے غیرمعمولی ترقی حاصل کرکے زندگی کے ہر پہلو تک اپنے دائرۂ کار کو وسعت دے لی ہے۔ ریاست کا ایک تصور تو مغرب کا دیا ہوا ہے جس کی بنیاد وطنیّت یعنی کسی خطہ ارضی سے وابستہ ہے۔ اس لحاظ سے ایک خطہ ارضی میں بسنے اور کسی ملک کی سرحدوں میں رہنے والے تمام افراد کے حقوق مساوی ہیں ،اسی تصور پر پاسپورٹ اور آمد ورفت کے قوانین بنائے جاتے اور ملکی لکیروں کو تقدس دیا جاتا ہے، باہر سے اس علاقہ میں آنے والوں پر اس علاقہ کے باشندگان کے مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ دوسری طرف اسلام کا نظریۂ ریاست ہے جو زمین کی بجائے دراصل نظریۂ اسلام سے جڑا ہوا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان ایک ہی اُمت، ملت اور جسد ِواحد ہیں ۔ اُمت ِمسلمہ میں ایک وقت میں ایک ہی خلیفہ / امیر المومنین ہوتا ہے جبکہ انتظامی مقاصد کے لئے مختلف خطوں پر اس کی طرف سے گورنر مقرر کئے جاتے ہیں ۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں : ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کاکفن ہے! جب بھی کہیں اسلامی ریاست کی بات ہوتی ہے تو اس میں غیرمسلموں کے حقوق کے بارے میں بہت سے اشکالات پیدا کئے جاتے ہیں ، جیسا کہ اسی شمارے میں شائع ہونے والے مضمون میں محمد علی جناح پر قیام پاکستان کے حوالے سے کئی اعتراضات کا تذکرہ موجود ہے۔ زیر نظر مضمون اسی حوالے سے بے بنیاد پروپیگنڈہ کے تناظر میں اصل صورتحال اور شریعت ِاسلامیہ کے موقف کو واضح کرنے کی اچھی کاوش ہے جس سے اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کے حقوق کا بخوبی علم ہوگا۔ (ح م) تاریخ انسانی گواہ ہے کہ کسی بھی دور، کسی بھی نسل اور کسی بھی علاقہ کا انسان آج تک وہ مقامِ ارفع حاصل نہیں کرسکا جو دین حنیف’اسلام‘ کے دامن میں پناہ لینے کے بعد اس کو نصیب ہوا۔اسلئے کہ اسلام ایک عالم گیر دین اور مکمل ضابطہ حیات تھا،اس کا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پوری کائناتِ انسانی کی طرف مبعوث ہوا تھا اور یہ وہ امتیاز ہے جو اس سے پہلے کسی نبی اور پیغمبر کو حاصل نہیں تھا۔ ٭ سیکرٹری جنرل ’ سپریم کونسل برائے امور اسلامیہ المجلس الاعلیٰ لشؤون الاسلامیۃ سعودیہ |