Prophet were prominent in Jinnah's speaches."(194-195) ’’جناح کی زندگی کے آخری چند برسوں میں اصل متن، خالصیت اور تعلیمات کے اعتبار سے اسلام کی طرف بڑھنے، دیہاتی طرزِ زندگی اور جدید مغرب زدہ اسلام سے دور ہٹنے کی شعوری کاوش نظر آتی ہے۔ اُنہوں نے تسلسل کے ساتھ قرآن و سنت میں بیان کردہ اُصولوں کو اپنی ریاست (پاکستان) کی اساس قرار دیا: ’’ہماری چٹان اور بنیاد اسلام ہے۔‘‘ (آر احمد ۱۹۹۳ء صفحہ ۲۲) ’’۱۹۴۴ء میں جناح نے اعلان کیا: ہم لیگ کے ہلال اور ستارے والے پرچم کے علاوہ اور کوئی پرچم نہیں چاہتے۔ اسلام ہی ہمارے لئے ہدایت اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ ہم کوئی سرخ یا زرد پرچم نہیں چاہتے۔ ہم سوشلزم، کمیونزم یا نیشنل سوشلزم کی طرح کا کوئی ’ازم‘ نہیں چاہتے۔‘‘ (ایضاً: ۱۵۳) ۱۹۴۶ء میں جناح نے مسلم لیگ کے ارکان سے کہا کہ وہ پاکستان کے لئے حلف پر ’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘ کے ساتھ دستخط کریں ۔ قیامِ پاکستان کے بعد جناح کی تقاریر میں قرآن و سنت سے حوالہ جات بہت نمایاں تھے۔‘ ‘ (صفحہ ۱۹۴، ۱۹۵) مختصر یوں ہے کہ قائد اعظم جب ’ڈیموکریٹک‘ ریاست کی بات کرتے تھے تو یہ ’تھیوکریٹک‘ ریاست کے خلاف تو تھی لیکن ’اسلامک‘ ریاست کے خلاف ہرگز نہیں تھی۔ وہ جس مذہبی یا دینی ریاست کے خلاف تھے اس میں پادریوں کے ٹولے کی عمل داری تھی ، وہ سیاہ وسفید کے مالک تھے۔ وہ کسی ایسی ریاست کے خلاف نہ تھے جس کی نظریاتی اساس اسلام جیسے آفاقی مذہب کی الہامی تعلیمات پر قائم ہو۔ دورِ حاضر میں ’تھیوکریسی‘ کے مخالف بعض دانشور مذہبی جماعتوں اور الہامی احکام، دونوں کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں ۔کلیسا کی مخالفت میں بالآخر وہ مذہب کے بھی مخالف ہو گئے ہیں ۔ وہ اپنے فکر کو قائد اعظم سے منسوب کرنے کی جسارت بھی کرتے ہیں حالانکہ قائد اعظم کلیسا کے مخالف تھے مگر مذہب کے مخالف نہیں تھے، بالخصوص دین اسلام کے۔ بدقسمتی سے قائداعظم کی فکر کے حوالہ سے اس اہم فرق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا!! |