Maktaba Wahhabi

75 - 79
مجبور ہیں ، بلکہ ہماری زندگی اور اولاد بھی خطرے میں ہے ۔‘‘[1] ٭ تھامس آرنلڈ اپنی کتاب Invitation to Islam (الدعوۃ إلی الاسلام) میں ترکوں کی رواداری اور عالی ظرفی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’اٹلی کے بعض معاشرے ترکوں کو بڑی رشک آمیز نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ کاش اُنہیں بھی وہی آزادی، تحفظ، رواداری مل جائے جو ان کی رعایا کو حاصل ہے، وہ کسی بھی مسیحی حکومت کے زیر سایہ ایسی آزادی اور رواداری سے اب مایوس ہوچکے ہیں ۔‘‘[2] ٭ بازنطینی باشندے اپنے ایک مذہبی رہنما کا یہ قول اکثر دہرایا کرتے تھے: ’’ہمیں اپنے شہروں میں بابویہ تاج دیکھنے سے ترکی عمامہ دیکھنا زیادہ پسند ہے۔‘‘[3] ٭ تھامس آرنلڈ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ جب پندرہویں صدی میں ظلم وستم سے ستائے ہوئے یہودی ہسپانیہ سے بھاگے تھے تو ان کو پناہ دینے والے ترک ہی تھے۔‘‘[4] ٭ گسٹاف لیبن(Gustav LeBon) لکھتا ہے: ’’رعایا کے درمیان عدل و انصاف کا بول بالا عربوں کا سیاسی دستور تھا۔ عربوں نے عوام کو مکمل مذہبی آزادی عطا کی، اُنہیں اس قدر عوامی حمایت حاصل تھی کہ وہ رومیوں اور لاطینیوں کے پیشوا اور رہنما بن گئے اور عوام الناس کو وہ امن و امان اور اطمینان حاصل تھا جس کا وہ اس سے پہلے تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔‘‘[5] علاوہ ازیں مصر، شام اور اندلس (ہسپانیہ/ سپین) میں مسلسل کئی صدیوں سے غیر مسلموں کی موجودگی اسلام کی رواداری، عالی ظرفی اور وسعت ِقلبی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حتیٰ کہ غیروں کی نظر میں حد سے بڑھی ہوئی یہ رواداری اندلس وغیرہ میں اسلام کے زوال کا باعث ہوئی جیساکہ کانٹ ہنری ڈی کیسٹری لکھتا ہے کہ ’’ مسلمانوں کی حد سے زیادہ نرمی اور مصالحانہ رویہ بھی مملکت ِعربیہ کے سقوط کا ایک سبب تھا۔‘‘[6] ہوا یہ کہ جب مسلمانوں کی آپس کی نااتفاقیاں حد سے بڑھ گئیں تو اندلس کے عیسائی
Flag Counter