Maktaba Wahhabi

74 - 79
کے کسی کونے سے ایک بھی آواز ان کی طرف دار نہ تھی،کیونکہ وہ ان کو اپنے دین سے خارج سمجھتے تھے۔ اس کے باوجود ان گرجا گھروں کا اب تک باقی رہنا اس حقیقت کی بہت بڑی دلیل ہے کہ اسلامی حکومتوں کی سیاست غیر مسلموں کے ساتھ رواداری کے عمومی اُصول پرقائم تھی۔‘‘[1] ٭ امریکی مصنف لوتھرپ سٹیڈرڈ(Lothrop Stoddard) کہتا ہے: ’’خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ نے عیسائیوں کے مقدس مقامات کی حفاظت کا ہر طرح سے اہتمام کیا، ان کے بعد ان کے جانشین بھی ان کے نقش قدم پر کار بند رہے، اُنہوں نے عیسائیوں کو تنگ نہیں کیا اور نہ ہی ہر سال عالم مسیحیت کے کونے کونے سے بیت المقدس کی زیارت کے لئے آنے والے عیسائی زائرین کو کسی قسم کی تکلیف دی۔‘‘ٍ<mfnote> ٭ غیر مسلموں نے مسلمانوں کی طرف سے حسن سلوک اور رواداری کے جو مظاہر دیکھے، اپنے ہم مذہبوں نے ان پر ظلم و تعدی کے جو پہاڑ توڑے تھے، اس کے پیش نظر وہ ایسی روا داری اور عالی ظرفی کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ صدیوں بعد اُنہیں اسلام کے سایہ تلے سکھ کا سانس نصیب ہوا تھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عساکر ِاسلام کے سپہ سالار ابوعبیدہ عامر بن جراح شام کو فتح کرنے کے بعد آگے کی طرف بڑھے تو وہاں کے عیسائیوں نے ان کو لکھا : ’’اے مسلمانوں کی جماعت! رومی اگرچہ ہمارے مذہب ہیں ، لیکن اس کے باوجود آپ ہمیں ان سے زیادہ محبوب ہیں ۔ آپ عہد و فا کرتے اور نرمی کا برتاؤ کرتے ہیں ، عدل و انصاف برتتے ہیں ۔آپ کی حکمرانی خوب ہے ،لیکن رومیوں نے ہمارے اموال پر قبضہ کیا اور ہمارے گھروں کو لوٹا ۔‘‘[2] ٭ مشہور مستشرق رچرڈسٹبنز(Richard Stebbins) ترکوں کے بارے میں لکھتا ہے ’’اُنہوں نے بلا تفریق لاطینی اور مغربی سب عیسائیوں کو اپنے مذہب پر کاربند رہنے کی اجازت دے دی اور قسطنطنیہ اور دیگر بے شمار مقامات پر اُنہیں گرجے الاٹ کئے تاکہ وہ اپنے مقدس مذہبی شعائر کو ادا کرسکیں ۔میں نے بارہ سال ہسپانیہ میں گزارے ہیں جس کی بنیاد پر میں بالجزم یہ کہ سکتا ہوں کہ آج نہ صرف ہم ان (عیسائیوں ) کی مذہبی مجالس میں شرکت پر
Flag Counter