٭ اٹلی کی ڈاکٹر لارا فیشیا فیگلبریل کھتی ہے: ’’ان اقوام کو اپنے قدیم مذاہب اور قدیم مذہبی رسومات کے تحفظ اور ان پر عمل کرنے کی مکمل آزادی حاصل تھی، شرط بس یہ تھی کہ جو لوگ دین اسلام کو پسند نہیں کرتے اُنہیں معمولی سا ٹیکس حکومت کو ادا کرنا ہوگا جسے جزیہ کہا جاتا تھا اور یہ ٹیکس انتہائی منصفانہ اوران ٹیکسوں کی نسبت بہت کم تھا جو خود مسلم رعایا اپنی حکومتوں کو دینے کی پابند تھی اور اس کے بدلے اس رعایاکو جو اہل الذمہ کے نام سے معروف تھے، جو تحفظ اور حقوق حاصل تھے وہ ان حقوق سے قطعاً مختلف نہیں تھے جو خود اُمت ِاسلامیہ کو حاصل تھے ۔ بعد میں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم ) اور خلفاے راشدین کے اِنہی اعمال کو باقاعدہ قانون بنا دیا گیا۔ تو اس کے بعد اگر ہم کہیں کہ اسلام صرف مذہبی رواداری کا داعی ہی نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس نے اس رواداری کو اپنی شریعت اور قانون کا لازمی حصہ بنا دیا ہے تو یقینایہ غلو اور مبالغہ نہیں ہے ۔‘‘[1] ٭ گسٹاف لیبن (Gustav LeBon)نے رابرٹسن (Robertson) کا یہ قول ذکر کیا ہے: ’’یہ صرف مسلمان ہی تھے جنہوں نے دیگر ادیان کے متبعین کے متعلق اپنی دینی غیرت اور رواداری کی روح کو جمع کیا ۔اُنہوں نے اپنے دین کی اشاعت کے لئے تلوار استعمال تو کی لیکن ان لوگوں سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا جو اسلام میں رغبت نہیں رکھتے تھے، اُنہیں اپنے مذہب پر کاربند رہنے کی مکمل آزادی تھی۔‘‘[2] ٭ انگریز مستشرق ٹی آرنلڈ مسلمانوں کی دیگر اقوام عالم کے ساتھ رواداری کے متعلق لکھتا ہے ’’ہم نے آج تک کسی ایسی منظم کوشش کے متعلق نہیں سنا جو غیرمسلموں کو جبراً مسلمان بنانے کے لئے اختیار کی گئی ہو اور نہ ہی کسی ایسی منظم ظالمانہ پالیسی کا ہمیں علم ہے جس کا مقصد دین مسیح کی بیخ کنی ہو، اگر مسلم خلفا ان دو میں سے کوئی ایک پالیسی بھی اختیار کرلیتے تو آج بآسانی مسیحیت کا وجود ختم کرسکتے تھے، جس طرح کہ فریننڈس اور ملکہ ازابیلا نے اندلس سے اسلام کو دیس نکالا دیا یا جس طرح چودہویں پولس نے پروٹسٹنٹ مذہب کے پیروکاروں کے ساتھ کیا ،اُنہیں فرانس میں سخت سزاؤں سے دوچار کیا گیا یا جس طرح ساڑھے تین سو سال تک یہودیوں کو انگلستان سے جلا وطن رکھا گیا۔ مشرقی ایشیا کے گرجے سارے عالم مسیحیت سے الگ تھلگ اور کوسوں دور تھے، عالم عیسائیت |