’’عربوں کو اللہ تعالیٰ نے دُنیا کی حکومت عطا کی، تم نے جو کچھ ان کے ساتھ کیا، وہ تمہارے ساتھ رہ کر اس کا مشاہدہ کرتے رہے جسے تم خود بھی بخوبی جانتے ہو۔ اس کے باوجود وہ مسیحی عقیدہ کے خلاف جنگ نہیں کررہے، بلکہ اس کے برعکس وہ ہمارے دین پر شفقت کرتے ہیں ، ہمارے پادریوں اور کرسمس کا احترام کرتے ہیں اور ہمارے دیر و کلیسا کو گرانٹ دیتے ہیں ۔‘‘[1] ٭ تاریخ میں یہ واقعہ موجود ہے کہ ولید بن عبدالملک نے دمشق کے کنیسہ یوحنا کو زبردستی عیسائیوں سے چھین کر مسجد میں شامل کرلیا۔ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ منصب ِخلافت پر فائز ہوئے اور عیسائیوں نے ان سے اس ظلم کی شکایت کی تو آپ نے اپنے گورنر کو حکم دیا کہ ’’گرجا کی زمین کا جتنا حصہ مسجد میں شامل کیا گیا ہے ،اگر عیسائی اس کا معاوضہ لینے پر رضامند نہ ہوں تو وہ اُنہیں واپس لوٹا دیا جائے۔‘‘[2] ٭ نیز یہودیوں کے مزعومہ دعویٰ کے مطابق بیت المقدس میں واقع دیوارِ گریہ (ہیکل سلیمانی) جسے آج یہودی اپنی مقدس ترین عبادت گاہ سمجھتے ہیں ، اس کے بارے میں تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ وہ کھنڈرات اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں تلے دب گئی تھی،جب عثمانی خلیفہ سلطان سلیمان القانونی کو یہ معلوم ہوا تو اُنہوں نے وہاں کے عثمانی گورنر کو اس جگہ کی صفائی کا حکم جاری کیا اور یہودیوں کو اس کی زیارت کی اجازت دے دی۔[3] ٭ مسلمانوں کی غیر مسلموں کے ساتھ اس روا داری اور عالی ظرفی کو خود انصاف پسند مغربی مفکرین نے بھی تسلیم کیا ہے۔عظیم مغربی مفکر گسٹاف لیبن(Gustav LeBon) لکھتا ہے: ’’محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) نے یہود و نصاریٰ کے ساتھ جس غایت درجہ کی عالی ظرفی اور روا داری کا مظاہرہ کیا ،سابقہ مذاہب کے بانیان خصوصاً یہودیت و نصرانیت کی تاریخ میں اس کی مثال موجود نہیں ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش ِقدم پر کاربند رہے، اس عالی ظرفی اور رواداری کا اعتراف تاریخ عرب پر گہری نظر رکھنے والے بعض مسلم اور غیر مسلم یورپین مفکرین نے بھی کیا ہے۔‘‘[4] |