ڈھلے۔ مسلمانوں نے غیر مسلموں کے عقائد اور رسوم و رواج کے احترام اور قبولِ اسلام کے لئے ان کے ساتھ عدمِ تشدد اور عدمِ دباؤ کا جو رویہ اختیار کیا، اس کی عملی مثالیں تاریخ کے اوراق میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ اسلام کی مرہونِ منت ہر قسم کی آزادی کا ان کے دلوں پر گہرا اثر ہوا۔ اسلام کے اُصول و حقائق ان کے دل و دماغ میں پیوست ہونے لگے ،کیونکہ وہ اس قسم کے حسن سلوک، رواداری اور عالی ظرفی کے اس سے قبل عادی نہ تھے۔ ٭ گسٹاف لیبن(Gustav LeBon) مسلم خلفا کے بارے میں رقم طراز ہیں : ’’اسلام کے اوّلین خلفا کی سیاسی بصیرت ومہارت ان کی حربی بصیرت و مہارت سے کسی طرح بھی کم نہیں تھی جو بہت تھوڑے عرصہ میں ان کو حاصل ہوگئی تھی۔ وہ خوب جانتے تھے کہ جبراً کسی کو اپنا دین چھوڑنے پر مجبور کرنے سے کیسے باز رہا جا سکتا ہے، اور اُنہیں خوب معلوم تھا کہ اسلام قبول نہ کرنے والوں کے لئے تلوار اور قوت استعمال کرنے سے کیسے بچا جاسکتا ہے، انہوں نے ہر جگہ علیٰ الاعلان یہ کہا کہ ہم دیگر اقوام کے عقائد اور رسوم و رواج کا احترام کرتے ہیں ، اُنہوں نے ان کو ظلم و تعدی سے محفوظ رکھا اور ان کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے اُنہیں پراُمن زندگی مہیا کی اور اس کے عوض جو معمولی سا جزیہ ان سے وصول کیا،وہ ان بھاری بھرکم ٹیکسوں سے کہیں کم تھا جو اس سے پہلے وہ اپنے حکمرانوں کو دیتے چلے آرہے تھے۔‘‘[1] ٭ اسلام کے زیرسایہ مذہبی اقلیتوں کے حقوق کس طرح محفوظ تھے، ڈاکٹر یوسف قرضاوی اس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’خلفاے راشدین کے دور سے یہود و نصاریٰ اپنی عبادات اور مذہبی رسومات مکمل آزادی اور حفاظت سے بجا لاتے آرہے ہیں اور اس کی تفصیل ان معاہدوں اور صلح ناموں میں دیکھی جاسکتی ہے جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں غیر مسلموں سے کئے گئے تھے،اس کی واضح مثال حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا وہ صلح نامہ ہے جو اُنہوں نے اہل بیت المقدس کو لکھ کر دیا تھا۔‘‘[2] ٭ مسلمانوں نے عیسائی گرجوں کا پوری طرح تحفظ کیا اور کبھی ان کی عبادت گاہوں کو بری آنکھ سے نہیں دیکھا۔ عیسائی فوج کا جرنیل یاف سوم(Geof III) اپنے ایک خط میں اساقفہ فارس (ایران کے راہبوں ) کے صدر بشپ ریفرڈشیر(Rifardashir)کو لکھتا ہے: |