إني موصیک بعشر: لا تقتلن امرأۃ ولا صبیا ولا کبیرًا ھرمًا ولا تقطعن شجرا مُثمرًا ولا تخربن عامرًا ولا تعقرن شاۃ ولا بعیرًا إلا لمأکلۃ ولا تغرقن نخلًا ولا تحرقنہ،ولا تغلُّوا ولا تجبُنُوا وسوف تمرُّون بأقوام قد فرّغوا أنفسھم في الصوامع فدعوھم وما فرّغوا أنفسھم لہ۔ ’’میں تمہیں دس باتوں کی وصیت کرتا ہوں ؛ کسی عورت، بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرنا، پھل دار درخت نہ کاٹنا اور نہ ہی تخریب کاری کرنا، سوائے کھانے کے کوئی اونٹ یا بکری ذبح نہ کرنا، کھجور کے باغات کو ڈبونا نہ اُنہیں جلانا، خیانت کا ارتکاب نہ کرنا، بزدلی نہ دکھانا۔ تم ایسے لوگوں کے پاس سے گزرو گے جو معبدوں میں گوشہ نشین ہوگئے ہیں ، ان سے اور ان کے کام سے تعرض نہ کرنا۔‘‘[1] حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اہل بیت المقدس کو جو صلح نامہ لکھ کر دیا تھا، اس کے الفاظ یہ تھے: ھذا ما أعطیٰ عبد ﷲ عمر أمیر المومنین أھل إیلیاء من الأمان: أعطاھم أمانًا لأنفسھم وأموالھم،ولکنائسھم،وصلبانھم وسقیمھا وبریئھا وسائر ملتھا، لاتسکن کنائسھم ولا تہدم ولا ینتقص منھا ولا من حیّزھا، ولا من صلیبھم،ولامن شییء من أموالھم ولا یکرھون علی دینھم ولا یضارّ أحد منھم ولا یسکن بـإیلیاء معھم أحد من الیہود[2] ’’یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے امیرالمومنین عمر نے اہل بیت المقدس کو دی ہے؛ ان کی جان و مال، ان کے گرجوں اور صلیبوں ، ان کے تندرستوں اور بیماروں اور ان کی ساری ملت کے لئے امان ہے۔ ان کے گرجوں کو مسلمانوں کا مسکن نہ بنایا جائے گا، نہ ان کو منہدم کیا جائے گا،نہ ان کے احاطوں اور ان کی عمارتوں میں کوئی کمی کی جائے گی۔ ان کے اموال اور صلیبوں کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ ان کے دین کے معاملہ میں کوئی جبرنہ کیا جائے گا اور نہ ا ن میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا اور ایلیا میں ان کے ساتھ یہودیوں کو آباد نہیں کیا جائے گا۔‘‘ اور پھر دُنیا نے دیکھا کہ غیر مسلموں سے کئے گئے یہ سب عہدوپیمان عمل کے قالب میں |