لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًا أَحَاطَ بِھِمْ سُرَادِقُھَا وَإنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَائٍ کَالْمُھْلِ یَشْوِي الْوُجُوْہَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَ سَآئَ ْت مُرْتَفَقًا﴾ (الکہف:۲۹) ’’اور ان کو بتا دو کہ یہ حق ہے تمہارے ربّ کی طرف سے، اب جس کا دل چاہے مانے اور جس کا دل چاہے انکار کردے اور ہم نے ایسے ظالموں کے لئے ایک آگ تیار کررکھی ہے جس کی لپٹیں اُنہیں گھیرے میں لے چکی ہیں ۔وہاں اگر وہ پانی مانگیں گے تو پگھلے ہوئے تانبے کے پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی جو ان کا منہ بھون ڈالے گا، انتہائی بدترین مشروب اور وہ نہایت بری آرام گاہ ہوگی ۔‘‘ یہ درست ہے کہ مسلمانوں نے تبلیغ ِحق کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کیلئے غیر مسلموں کے سامنے اسلام کو پیش کیا ،لیکن کسی کو زبردستی اس کے ماننے پر مجبور نہیں کیا۔حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ایک نصرانی بڑھیا سے کہا:اے بوڑھی خاتون!اسلام قبول کرلو،اس میں سلامتی ہے اور اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ہے۔اس نے جواب دیا:میں بہت بوڑھی ہوں اور موت میرے زیادہ قریب ہے ۔اس پر حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اے اللہ تو گواہ رہنا اور یہ آیت مبارکہ پڑھی:﴿ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ﴾ (البقرۃ:۲۵۶) ’’دین میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے، صحیح بات غلط نظریات سے چھانٹ کر الگ رکھ دی گئی ہے۔‘‘[1] ۶۸۰ھ میں جب سلطان منصور قلاوون نے اہل ذمہ کے لئے اسلام میں داخل ہونا لازمی قرار دے دیا اور وہ لوگ بادلِ نخواستہ مسلمان ہوگئے تو اس دور کے علماء و قضاۃ سلطان کے اس فعل پر سخت ناراض ہوئے ، چنانچہ اس کے چھ ماہ بعد علما کی ایک مجلس منعقد ہوئی اور اُنہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ ان لوگوں کو چونکہ اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ہے، اور دین اسلام میں کسی کو جبراً مسلمان بنانا جائز نہیں ہے، لہٰذا اُنہیں اپنے مذہب میں واپس جانے کی اجازت ہے ۔اس پر بہت سے ذمی اپنے مذہب میں واپس چلے گئے۔[2] اٹلی کی ایک ڈاکٹرلارا فیشیا فیگلبری لکھتی ہے: |