’’دین کے معاملہ میں کوئی زور زبردستی نہیں ۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جوکوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لایا، اس نے ایک مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘ (البقرۃ:۲۵۶) امریکی پروفیسر ایڈون کیلگرلی اس آیت ِقرآنی کے متعلق لکھتا ہے : ’’قرآنِ کریم کی اس آیت مبارکہ سے حق و صداقت اور حکمت و دانش جھلکتی ہے۔ ہر مسلمان اس کو جانتا ہے، لیکن ضروری ہے کہ غیرمسلم بھی اس کو جان لیں ۔ اس کا پیغام یہ ہے کہ ’’دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔‘‘[1] یہ آیت بعض انصاری مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جن کی اولاد ابھی تک یہودیت اور عیسائیت پر عمل پیرا تھی۔ جب اسلام کا پیغام مدینہ منورہ میں داخل ہوا تو اُنہوں نے اپنی اولاد کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش تو یہ آیت نازل ہوئی اور انہیں ایسا کرنے سے روک دیا گیا۔[2] اس شانِ نزول کو پیش ِنگاہ رکھتے ہوئے اگر کوئی شخص اس آیت ِمبارکہ پر غور کرے گا تو وہ جان لے گا کہ اسلام کسی کو زبردستی اپنی حقانیت کا اقرار کرنے پر مجبور کرنے کا قائل نہیں ہے۔ باپ سے بڑھ کر اپنی اولاد کے لئے شفیق،مہربان اور خیرخواہ کون ہوسکتا ہے اور اولاد سے بڑھ کر اپنے والدین کے لئے ہمدرد اور کون ہوسکتا ہے؟ لیکن باپ اپنے بیٹے کو اور بیٹا اپنے باپ کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا، حتیٰ کہ یہ بھی ہوا کہ بعض غیر طبعی حالات باپ کی کوشش اور مرضی کے خلاف اولاد کو کسی دوسرے مذہب کی طرف لے گئے ،مثلاً بعض ماؤں کی اولاد بچپن میں ہی مرجاتی تھی تو وہ یہ نذر مانتیں کہ اگر اس کا یہ بیٹا زندہ رہا تو وہ اسے یہودی یا عیسائی بنائے گی، لیکن اس سب کچھ کے باوجود قرآن اس بات کو ردّ کرتا ہے کہ کسی کو زبردستی دین حنیف قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔[3] فرمانِ الٰہی ہے : ﴿وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکُمْ فَمَنْ شَائَ فَلْیُؤمِنْ وَمَنْ شَائَ فَلْیَکْفُرْ إنَّا أَعْتَدْنَا |