Maktaba Wahhabi

66 - 79
تحفظ کی مکمل ضمانت دیتے تھے اور وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ضمانت سے پوری طرح مطمئن تھے۔[1]حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی شخص کو کسی لشکر کا سپہ سالار بنا کر بھیجتے تو اسے خصوصاً اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے اور اپنے لشکر یوں کے ساتھ خیرخواہی کی تلقین کرتے اور اس کے بعد فرماتے: أغزوا باسم ﷲ في سبیل ﷲ قاتلوا من کفر باﷲ،أغزوا ولا تغلوا، ولا تغدروا ولا تمثلوا ولا تقتلوا ولیدا وإذا لقیت عدوک من المشرکین فادعھم إلی ثلاث خصال، فأیتھن ما أجابوک فاقبل منھم وکف عنھم ثم ادعھم إلی الاسلام فإن أجابوک فاقبل منھم ۔۔۔[2] ’’اللہ کے نام سے جہاد فی سبیل اللہ کا آغاز کرنا، جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرے اس کے ساتھ لڑنا، خیانت نہ کرنا، دھوکہ نہ دینا، نہ کسی کا ناک کان کاٹنا، کسی بچے کو قتل نہ کرنا، جب مشرک دشمن سے معرکہ آرائی ہو تو ان کے سامنے تین باتیں پیش کرنا: ان میں سے جو بات بھی وہ مان لیں ، اسے قبول کرلو اور ان سے اپنا ہاتھ روک لو۔ 1. سب سے پہلے انہیں اسلام کی دعوت دو،اگر وہ مان جائیں تو ان کا اسلام قبول کرلو، پھر اُنہیں اپنے علاقہ سے دارالمہاجرین کی طرف ہجرت کی دعوت دو اور اُنہیں بتاؤ کہ ہجرت کے بعد تمہیں وہ تمام حقوق ملیں گے جو مہاجرین کو حاصل ہیں اور وہ تمام فرائض تم پر لاگو ہوں گے جو مہاجرین پر عائد ہیں اور اگر وہ ہجرت کرنے سے انکار کردیں تو اُنہیں بتاؤ کہ اب تمہاری حیثیت بادیہ نشین مسلمانوں کی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کے وہ تمام احکام تم پر لاگو ہوں گے جو مؤمنوں پرعائد ہیں اور انہیں مالِ غنیمت اور مالِ فے اسی صورت میں ملے گا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں 2. لیکن اگر وہ اسلام قبول کرنے سے ہی انکار کردیں تو پھر اُنہیں جزیہ دینے کی دعوت دو، اگر مان لیں تو قبول کرلو اور اپنا ہاتھ ان سے روک لو اور 3. اگرانکار کردیں تو ا للہ تعالیٰ سے مدد کا سوال کرو اور ان سے قتال کرو۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حکمت ِعملی اس فرمان الٰہی کے عین مطابق ہے : ﴿ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّـهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴾
Flag Counter