موڑموڑ پر ظلم و ستم کی ہزاروں داستانیں بکھری پڑی ہیں ۔ رومی سلطنت سے بڑھ کر ظلم و جور کا دور اور کون سا ہوگا؟ لیکن کوئی ایک آواز بھی اس کے خلاف نہیں اُٹھتی اور دوسری طرف ایک عادل اسلامی حکومت تھی جس کی گود میں فرد کو اپنے حقوق اور عزت کا شعور ملا، اس نے مظلوم کو اس قابل بنا دیا کہ وہ مصر سے مدینہ تک کے سفر کی صعوبتیں اس اعتماد اور یقین پر برداشت کرتا ہے کہ اس کا حق ضائع نہیں ہوگا اور اس کی شکایت توجہ سے سنی جائے گی۔[1] 2. عقیدہ کی آزادی کا حق اسلام نے کبھی اپنے مخالفین کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا، غیر مسلموں کو اپنے دین پر باقی رہنے کی مکمل آزادی تھی، قرآن و سنت کی کوئی ایک بھی نص ایسی نہیں ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکے کہ اسلام تلوار کے زور سے لوگوں کو اپنی حقانیت کا اقرار کرنے پر مجبور کرتا ہے، بلکہ قرآن و سنت کی تعلیمات اس کے بالکل برعکس ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہیں : ﴿ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَن فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا ۚ أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّىٰ يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ ﴾ (سورۂ یونس:۹۹) ’’اگر تیرا ربّ چاہتا تو تمام اہل زمین ایمان لے آتے ،پھرکیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مؤمن ہوجائیں ۔‘‘ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر لوگوں کو یہ اختیار دیا کہ وہ اسلام کو قبول کریں یا اپنے مذہب پر قائم رہیں ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ ایک معاہدہ کرتے تھے جس کے تحت وہ ادنیٰ سا جزیہ٭ دیتے تھے جس کے عوض آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ان کے دین، جان و مال اور عزت کے |