من عند غیر ﷲ،قولہ ﴿أذکُرْنِيْ عِنْدَ رَبِّکَ﴾)) (یوسف :۴۲) [1] ’’مجھے اپنے بھائی یوسف کے صبر اور ان کی شان بے نیازی پر حیرت ہے، اللہ ان کو معاف فرمائے کہ جب (جیل میں ) ان کے پاس خواب کی تعبیر دریافت کرنے کی غرض سے آدمی بھیجا گیا (تو انہوں نے فوراً اس کی تعبیر بتادی) اگر میں ہوتا تو کبھی تعبیر نہ بتاتا ، تاوقتیکہ مجھے جیل سے رہا نہ کردیا جاتا۔ اللہ ان کی بخشش فرمائے، ان کا صبر اور شانِ بے نیازی دیکھئے کہ جب حکومت وقت نے اُنہیں جیل سے رہا کرنا چاہا تو اُنہوں نے جیل سے باہر نکلنے سے انکار کردیا تاوقتیکہ ان کی بے گناہی ثابت نہیں ہوجاتی۔ اگر میں ہوتا تو فوراً دروازہ کی طرف لپکتا، اگر اُنہوں نے قید سے رہائی پانے والے اپنے ساتھی سے یہ نہ کہا ہوتا کہ رہا ہونے کے بعد اپنے آقا سے میرا تذکرہ کرنا تو وہ زیادہ مدت جیل میں نہ رہتے۔ اس کلمہ کی پاداش میں اُنہیں اتنی طویل مدت جیل کاٹنی پڑی،کیونکہ اُنہوں نے غیر اللہ سے آسانی چاہی تھی۔‘‘ یہ محض عقیدہ ہی نہیں ،بلکہ مسلمانوں نے اپنے عمل سے بھی ثابت کیا کہ وہ تمام انبیا سے محبت اور ان کی تعظیم کرتے ہیں اور یہ بات یقینا ان انبیا کے ماننے والوں کے لئے بھی باعث شرف اور لائق تکریم ہے ۔اسی طرح اگر غیر مسلم بھی پیغمبر اسلام محمد بن عبداللہ علیہ افضل الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لاتے، جیسا کہ مسلمان اللہ کے تمام رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں تو یہ ان کے حق میں بھی باعث ِخیروبرکت ہوتا اور مسلمانوں کے لئے بھی۔ غیرمسلموں کی خوبیوں کا اعتراف:اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ غیر مسلموں کی خوبیوں کا اعتراف کیا ہے اور ان کی اچھی چیزوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جلیل القدر صحابی حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے سامنے رومیوں کا تذکرہ کیا گیا تو اُنہوں نے فرمایا: إن فیھم لخصالاً أربعًا: إنھم لأحلم الناس عند فتنۃ وأسرعھم إفاقۃ بعد مصیبۃ،وأوشکھم کرۃ بعد فرۃ،وخیرھم لمسکین ویتیم وضعیف، وخامسۃ حسنۃ جمیلۃ: وأمنعھم من ظلم الملوک[2] ’’ان میں چار خوبیاں پائی جاتی ہیں : یہ لوگ فتنہ اور آزمائش کے وقت سب لوگوں سے زیادہ |