مقصود ہوتا ہے۔قرآنِ کریم نے یہاں یہ وضاحت نہیں کی کہ کون کس گروہ سے تعلق رکھتا ہے ، کون راہِ مستقیم پر گامزن ہے اور کون گمراہی کی وادیوں میں سرگرداں ہے اور یہ وہ انصاف ہے جو اسلام نے اپنے مخالفین کے ساتھ کیا ہے کہ ان پر حجت تمام کردی اور پھر فیصلہ عقل و دانش پر چھوڑ دیا کہ عقل وبینش کاحامل انسان خود فیصلہ کرے کہ وہ کس راہ کا راہی ہے۔ امام زمخشری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ وھذا من الکلام المنصف الذي کل من سمعہ من موال أو مناف قال لمن خوطب بہ : قد أنصفک صاحبک،وفي درجہ بعد تقدمۃ ما قدم من التقریر البلیغ دلالۃ غیر خفیۃ علی من ھو من الفریقین علی ھدی ومن ھو في الضلال المبین ولکن التعریض والتوریۃ أنضل بالمجادل إلیٰ العرض وأھجم بہ علی الغلبۃ مع قلۃ شغب الخصم،وفل شوکتہ بالہوینا، ونحوہ قول الرجل لصاحبہ: علم ﷲ الصادق مني ومنک، وإن أحدنا لکاذب۔[1] ’’یہ ایسی مبنی برانصاف کلام ہے کہ اس کو سننے والا ہر دوست، دشمن شخص یقینا اس کلام کے مخاطب سے کہے گا: ’’سچی بات یہ ہے کہ تیرے مدمقابل ساتھی نے تجھ سے انصاف کیا ہے۔ اس سے ماقبل کلام میں ایک زبردست اور بلیغ اشارہ ہے جس کی تہہ میں یہ رہنمائی و اشگاف انداز میں موجود ہے کہ دو فریقوں میں سے کون سا فریق راہِ حق پر اور کون سا گروہ واضح گمراہی میں گرا ہوا ہے۔ لیکن تعریض اور توریہ کا انداز اس لئے اختیار کیا گیا کہ یہ اندازمدمقابل کو صحیح نشانہ پر گھائل کرنے والا ، اور اس زور سے حملہ آور ہونے والا ہے کہ مدمقابل کی طرف سے ہنگامہ آرائی کم ہوگی اور اس کی قوت کی تلوار آسانی سے کند ہوجائے گی۔یہ وہی اندازِ تکلم ہے جیسے کوئی اپنے ساتھی سے کہے: اللہ جانتا ہے ہم دونوں میں سے کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔ البتہ ہم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے۔‘‘ غیرمسلموں کے مذہبی شعائر کا احترام:’’اللہ تعالیٰ نے انسانی تکریم کے پیش نظر مسلمانوں پر حرام کردیا ہے کہ وہ مشرکوں کے معبودوں کو گالی دیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بھی اس کے ردعمل |