Maktaba Wahhabi

56 - 79
کرو۔ بس یہ کہہ دو: ہم اللہ تعالیٰ، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، تو اس طرح اگر وہ بات سچی تھی تو تم نے ان کی تکذیب نہیں کی اور اگر وہ بات جھوٹ تھی تو تم نے اس کی تصدیق نہیں کی۔‘‘ امام کرمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ہمیں انبیا پر نازل شدہ تمام کتابوں پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے اور ہمارے پاس کوئی ایسا معیار نہیں ہے جس کے ذریعہ ہم یہ پہچان سکیں کہ ان کتب کے مؤلفین نے جو کچھ نقل کیا ہے ان میں سے کون سی بات حق ہے اور کون سی باطل ہے۔ ہم نہ تو ان کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہم بھی اس کذب کی تحریف کے جرم میں ان کے ساتھ شریک ہوجائیں اور نہ ہی ہم اُنہیں جھوٹا کہتے ہیں کہ شاید جو کچھ اُنہوں نے نقل کیا ہے وہ صحیح ہو اور ہم کسی ایسی چیز کا انکار کر بیٹھیں جن پر ایمان لانے کا ہمیں حکم دیا گیا ہو۔‘‘[1] غیرمسلموں سے انصاف کا برتاؤ:اور بلا خوفِ تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ روئے زمین پر کوئی ایسا دین، مذہب اور نظام موجود نہیں ہے جس نے اسلام سے بڑھ کر اپنے معاندین اور مخالفین کے ساتھ انصاف کا برتاؤ کیا ہو۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں ہے؟ ﴿ قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ قُلِ اللَّـهُ ۖ وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَىٰ هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴾ (سبا:۲۴) ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے پوچھو، کون تم کو آسمانوں اور زمین سے رزق دیتا ہے، کہو: اللہ، اب لامحالہ ہم میں اور تم میں کوئی ایک ہی ہدایت پر یا کھلی گمراہی میں پڑا ہوا ہے۔‘‘ دیکھئے ! اللہ تعالیٰ نے کن الفاظ کے ساتھ اس آیت کو ختم کیا ہے، اللہ کو معلوم تھا کہ کون راہِ راست پر ہے اور کون گمراہی میں پڑا ہوا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہاں یقین کو شک کے ساتھ ملا کر اس لئے بیان کیا ہے تاکہ وہ چیز مبرہن ہوکر سامنے آجائے جس کا حق ہونا سب کو معلوم ہے اور حق و باطل اور شک و یقین کے درمیان امتیاز واضح ہو جائے۔علم بلا غہ کی اصطلاح میں اس کو ’تجاہل عارفانہ‘ کا نام دیا گیا ہے جس کے ذریعے معنی میں زیادہ مبالغہ اورتاکید مہیا کرنا
Flag Counter