انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شاندار روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کے آئندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں ۔ بہرنوع پاکستان ایک ایسی مذہبی مملکت نہیں ہوگی جس پر آسمانی مقصد کے ساتھ پاپاؤں کی حکومت ہو۔ غیر مسلم، ہندو، عیسائی اور پارسی ہیں ، لیکن وہ سب پاکستانی ہیں ۔ اُنہیں وہ تمام حقوق اور مراعات حاصل ہوں گے جو کسی اور شہری کو حاصل ہوسکتی ہیں اور وہ اُمورِ پاکستان میں اپناجائز کردار ادا کرسکیں گے۔‘‘ (ایضاً: جلد چہارم/ صفحہ ۴۲۲) امریکی قوم سے خطاب کرتے ہوئے بھی قائداعظم نے تقریباً وہی اُسلوب پسند کیا جو وہ پہلے آسٹریلوی قوم سے خطاب میں کرچکے تھے یعنی پہلے ’اسلامی تعلیمات‘ اور اسلام کے ’بنیادی اُصول‘ کا فخر سے تذکرہ اور اسلامی جمہوریت کے تصور کی وضاحت، پھر اس کے فوراً بعد یہ تصریح کہ اسلامی جمہوریت کوئی تھیوکریسی نہیں ہے۔ اگر کوئی امریکی اسلام یا اسلامی ریاست کے متعلق پہلے سے کوئی غلط تصور کو قائم کئے ہوئے ہے، تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اسلامی ریاست، تھیوکریسی یا پاپائیت سے بالکل مختلف نظریہ ہے۔ قائداعظم کا یہ بیان اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ اس میں اُنہوں نے تھیوکریسی کی تعریف بھی بیان کردی ہے۔ ان کے انگریزی الفاظ ملاحظہ کیجئے : "In any case, Pakistan is not going to be a theocratic state, to be ruled by priests with a divine mission." گویا قائداعظم کے خیال میں ’’تھیوکریسی ایک ایسا نظامِ حکومت ہے جس میں پادری یا نام نہاد مذہبی پیشوا باقاعدہ خدائی مشن سمجھتے ہوئے حکومت چلاتے ہیں ۔‘‘ مغرب کے جدید دانشور بھی ’تھیوکریسی‘ سے عام طور پر یہی مراد لیتے ہیں ۔ کلیسائی اقتدار کی تاریخ گواہ ہے کہ تھیوکریسی چلانے والے مذہبی پیشوا نہ تو عوام کی رائے کو اہمیت دیتے تھے کیونکہ وہ عوامی نمائندے نہیں بلکہ پوپ کے نامزد کردہ ہوتے تھے، نہ حکومتی اُمور میں وہ کسی الہامی شریعت کے وضع کردہ قوانین کے پابند تھے کیونکہ عیسائیت میں محض اخلاقی تعلیمات پائی جاتی ہیں ، باقاعدہ شریعت یا شرعی قوانین و احکام کا کوئی ایسا ضابطہ نہیں ہے جسے دستورِ مملکت بنایا جاسکے۔ اس لئے ریاستی اُمو ر میں وہ اپنی آرا کا آزادانہ استعمال کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے |