Maktaba Wahhabi

44 - 79
آج کے ہمارے سیکولر دانشور دوسرے ممالک میں جب پاکستان کا تذکرہ کرتے ہیں تو بے حد احتیاط کرتے ہیں کہ کہیں اسلامی تعلیمات اور ملت ِ اسلامیہ کا تذکرہ کرنے سے اُنہیں بنیاد پرست نہ سمجھ لیا جائے مگر قائداعظم اس طرح کے معذرت خواہانہ انداز کے قائل نہیں تھے۔ اُنہوں نے آسٹریلوی عوام کو بے حد فخر سے بتایا کہ پاکستانی قوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہے، اسے کسی ’ازم‘ کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سب کچھ فرمانے کے بعد اُنہیں برطانوی اور ہندو ذرائع ابلاغ کے ’تھیوکریسی‘ والے پراپیگنڈہ کا بھی احساس تھا، اسی لئے اُنہوں نے خود ہی یہ وضاحت بھی کردی کہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ایک ریاست کو پاپائیت نہ سمجھ لیا جائے۔ ان کے بیان کا یہ حصہ عام طور پر ہمارے دانشور بیان کرتے ہیں : "Make no mistake, Pakistan is not a theocracy or anything like it." مگر ہمارے سیکولر دانشور ہمیشہ سکوت فرماتے ہیں اور بالکل بیان نہیں کرتے کہ قائداعظم نے یہ جملے کب اور کیوں اور کن لوگوں سے ارشاد فرمائے۔ مزید برآں وہ اقلیتوں کے حقوق کا واویلا تو بہت کرتے ہیں مگر قائداعظم کی طرح ان کی پاکستان سے وفاداری کا ذکر کبھی نہیں کرتے۔ 6. ’تھیوکریسی‘ کے ضمن میں قائداعظم کا آخری بیان جو ریکارڈ پرہے یا جسے میں تلاش کرسکا ہوں ، وہ ۲۵ فروری۱۹۴۸ء کا ہے۔ اس تاریخ کو آپ نے امریکہ کے عوام سے نشری خطاب فرمایا۔ اس خطاب میں من جملہ دیگر باتوں کے آپ نے فرمایا: ’’پاکستان سب سے بڑی اسلامی مملکت اور دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ دنیا کی تمام قوموں کے ساتھ دوستی اور خیرسگالی ہماری خارجہ حکمت ِعملی ہے۔‘‘ آپ نے امریکی قوم کو پاکستان کے دستور اور ریاستی نظام کی نوعیت کے متعلق بریف کرتے ہوئے فرمایا: ’’مجلس دستور ساز کو ابھی پاکستان کے لئے دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کایقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جس میں اسلام کے بنیادی اُصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان کا اطلاق عملی زندگی میں ویسے ہی ہوسکتا ہے جیسے کہ ۱۳ سو برس قبل ہوسکتا تھا۔ اسلام نے ہر شخص کے ساتھ عدل اور
Flag Counter