’’میں صاف طورسے واضح کردوں کہ پاکستان اسلامی نظریات پر مبنی ایک مسلم ریاست ہوگی۔ یہ پاپائی (کلیسائی) ریاست نہیں ہوگی۔ اسلام میں جہاں تک شہریت کا تعلق ہے، کوئی امتیاز نہیں ہے۔‘‘ (ایضاً: جلد چہارم/ صفحہ ۳۹۸) معلوم ہوتا ہے کہ کونسل میں کسی شخص نے قائداعظم سے پاکستان کی ریاست کی نوعیت کے بارے میں سوال کیا تو اُنہیں یہ جواب دینا پڑا۔ انکے اس انگریزی بیان میں "Theocratic" نہیں بلکہ "Ecclesiastical" (کلیسائی) کے الفاظ ہیں جس سے واضح طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جس مذہبی ریاست کے وہ مخالف تھے وہ یہی کلیسائی طرز کی پیشوائیت تھی جو اَزمنہ قدیم میں یورپ میں رائج تھی۔ ان کی یہ وضاحت کہ پاکستان اسلامی نظریات پر مبنی مسلم ریاست ہوگی، اس بات کے ثبوت کے لئے کافی ہے کہ ان کے ذہن میں سیکولر ریاست کا خاکہ نہیں تھا۔ 5. ۱۹/ فروری۱۹۴۸ء کو آسٹریلیا کے عوام سے ان کے قومی دن کے موقع پر قائداعظم نے مفصل خطاب فرمایا۔ اس خطاب میں اُنہوں نے آسٹریلوی عوام سے پاکستان اور پاکستانی قوم کا مفصل تعارف کروایا۔ اُنہوں نے کہا: ’’نہ صرف یہ کہ ہم میں سے بیشتر لوگ مسلمان ہیں ، بلکہ ہماری اپنی تاریخ ہے۔ رسوم و روایات ہیں اور آئیڈیالوجی ہے۔ وہ نظریہ اور سوچ ہے جس سے قومیت کا شعور اُبھرتا ہے۔‘‘ آسٹریلوی قوم چونکہ بنیادی طور پر یورپی کلچر کی نمائندہ ہے، اس لئے قائداعظم نے ان سے خطاب کرتے ہوئے نئی اسلامی ریاست کے سیاسی فلسفہ کی وضاحت بھی مناسب سمجھی۔ آپ نے فرمایا: ’’ہماری عظیم اکثریت مسلمان ہے۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پرعمل پیرا ہیں ۔ ہم اسلامی ملت و برادری کے رکن ہیں جس میں حق، وقار اور خود داری کے تعلق سے سب برابر ہیں ۔ نتیجۃً ہم میں اتحاد کاایک خصوصی اور گہرا شعور موجود ہے۔ لیکن غلط نہ سمجھئے پاکستان میں کوئی نظامِ پاپائیت رائج نہیں ہے، اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اسلام ہم سے دیگر عقائد کو برداشت کرنے کا تقاضا کرتا ہے اور ہم اپنے ساتھ ان لوگوں کے گہرے اشتراک کا پرتپاک خیرمقدم کرتے ہیں جو خود پاکستان کے سچے اور وفادار شہریوں کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے آمادہ اوررضا مند ہوں ۔‘‘ (ایضاً: جلد چہارم/ صفحہ:۴۱۶) |