مندرجہ بالا سوال وجواب میں قائداعظم نے جس لہجے میں جواب دیا، وہ غیر متوقع نہیں ہے۔ جب وہ اسی پریس کانفرنس میں پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے متعلق مفصل بریفنگ دے چکے تھے تو اس صحافی کا سوال یقینا بے ہودہ اور شرارت پر مبنی تھا۔ ظاہر ہے ایسا سوال کوئی مسلمان صحافی نہیں کرسکتا تھا۔ مندرجہ بالا سطور میں یہ وضاحت بھی ملتی ہے کہ تھیوکریٹک ریاست میں شہری حقوق مختلف ہوتے ہیں ۔ مگر یہ محض ایک طرح کی وضاحت ہے جو پریس کانفرنس میں موجود ایک صحافی نے کی، ورنہ تھیوکریٹک ریاست سے عام طور پر مذہبی پیشوائیت یا پاپائیت لی جاتی ہے جس میں حکومت کے عہدوں پر مذہبی پیشواؤں کو ہی فائز کیا جاتاہے اور یہ تصور عیسائیت کی قدیم تاریخ سے وابستہ ہے۔ قائداعظم نے اپنے جواب میں بالکل درست فرمایا کہ مسلمانوں نے جمہوریت کا درس تیرہ سو برس پہلے ہی سیکھ لیا تھا اور جمہوری ریاست میں پادریوں کی نامزدگی ناقابل تصور ہے۔ جو لوگ ’تھیوکریسی‘ میں ’اسلامی ریاست‘کو داخل سمجھتے ہیں ، قائداعظم نے ان کے بارے میں ہی فرمایا کہ اُنہوں نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا یا پھرایسا وہ لوگ کہتے ہیں جن کی سوچ اِلحاد پرمبنی ہے۔ اسلام کی پوری تاریخ میں عیسائیوں کی طرح کی مذہبی پیشوائیت کا وجود نہیں ملتا۔ اسلام میں کسی پوپ کی گنجائش نہیں ہے! 4. ۱۴/ ۱۵ دسمبر۱۹۴۷ء کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کا آخری اجلاس ہوا۔ تقسیم ہند کے جگر پاش ہنگاموں کی وجہ سے پوری قوم حزن و ملال کا شکار تھی۔ قائداعظم نے دل گرفتگی کے عالم میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’آپ جانتے ہیں کہ مسلم لیگ نے پاکستان کے حصول اور قیام کے لئے جس انداز میں جدوجہد کی، وہ بے مثال ہے۔ مسلمان ایک ہجوم کی مانند تھے۔ وہ شکستہ دل تھے، اقتصادی طور پر پامال تھے۔ ہم نے پاکستان حاصل کرلیا ، لیگ کے لئے نہیں ، اپنے کسی رفیق کے لئے نہیں ، بلکہ عوام کے لئے۔ اگر پاکستان حاصل نہ کیا جاتا تو مسلم ہند کا خاتمہ ہوجاتا۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ہندو نہ صرف قتل و غارت اور اَملاک کی تباہی پر اُتر آئیں گے بلکہ منظم طور پر جتھہ بندی کرکے ظلم و تشدد کا پہاڑ کھڑا کردیں گے۔ اس کا مقصد پاکستان پر ضرب لگانا تھا اور یہ سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔‘‘ قائداعظم کے اس خطاب میں درج ذیل سطور بھی ملتی ہیں : |