بھی ہوں گی۔ وہ اس مملکت کے کاروبار میں اپنا کردار بھی ادا کریں گے۔ جب تک کہ اقلیتیں مملکت کی وفادار ہیں اور صحیح معنوں میں ملک کی خیرخواہ رہیں اور جب تک مجھے کوئی اختیار حاصل ہے، اُنہیں کسی قسم کا اندیشہ نہیں ہونا چاہئے۔‘‘ (ایضاً: جلد چہارم، صفحہ ۳۴۹) یہ بے حد مؤثر، بلیغ، مدبرانہ اور خوبصورت بیان ہے جس کی توقع ایک نوزائیدہ اسلامی ریاست کے سربراہ سے کی جاسکتی ہے۔ سلیم القلب انسان کے لئے اتنی وضاحت کافی ہونی چاہئے مگر ہندو کانگرس کے وہ گماشتے جو صحافت کے میدان میں تھے، ان کی اس واضح بیان سے بھی تشفی نہ ہوئی۔ ایک صحافی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک ہندو اخبار کے نمائندہ تھے، نے سوال کیا: "Q. Will Pakistan be a secular or theocratic state.? Mr.M.A.Jinnah: You are asking me a question that is absurd. I do not know what a theocratic state means,(A correspondent suggested that a theocratic state meant a state where only people of a particular religion, for example, Muslims could be full citizens and non-Muslims would not be full citizens). Mr. M.A.Jinnah: Then it seems to me that what I have already said is like throwing water on duck's back (Laughter). When you talk of democracy, I am afraid you have not studied Islam. We learnt democracy thirteen centuries ago." ترجمہ: ’’سوال: پاکستا ن ایک لادینی ریاست ہوگی یا دینی ریاست؟ مسٹر ایم اے جناح: آپ مجھ سے ایک بے ہودہ سوال کررہے ہیں ۔ مجھے نہیں معلوم کہ تھیوکریٹک ریاست کے کیا معنی ہوتے ہیں ؟ (ایک اخبار نویس نے کہا کہ تھیوکریٹک ریاست ایسی ہوتی ہے جس میں صرف کسی مخصوص مذہب کے لوگ مثلاً مسلمان تو پورے شہری ہوسکتے ہیں اور غیر مسلم پورے شہری نہیں ہوسکتے۔) مسٹر جناح: پھر مجھے ایسا لگتا ہے کہ پہلے میں نے جو کچھ کہا ہے وہ ایسا ہوا جیسا چکنے گھڑے پر پانی گرا دیا جائے۔ جب آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا۔ ہم نے جمہوریت کا سبق تیرہ سو برس پہلے پڑھا تھا۔‘‘ ( ایضاً: ۴/ ۳۱۵) |