کہ کلیسا نے من مانے ’اجتہاد‘ سے کام لیتے ہوئے سائنس اور طبیعی علوم کے ماہرین کو شدید ترین سزاؤں کانشانہ بنانا۔ ان کا یہی طرزِ عمل آج بھی مغرب کے کسی بھی تعلیم یافتہ فرد کو خوف زدہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس اعتبار سے ’اسلام‘ یا ’اسلامی تاریخ‘ کلیسا کے نظریات وتاریخ سے بالکل مختلف ہے۔ جیسا کہ قائداعظم نے فرمایا کہ مسلمانوں نے جمہوریت کا سبق چودہ سو برس قبل ہی سیکھ لیا تھا۔ اسلامی تاریخ میں خلفاے راشدین کا دور تو مثالی ہے ہی، مگر بعد میں بھی کسی خلیفہ یا سلطان نے قرآن و سنت کو مسترد کرکے کوئی نیا دستور وضع کرنے کی جسارت نہ کی۔ اسلامی تاریخ ایسی متعدد مثالیں پیش کرسکتی ہے جن کے مطابق مسلمانوں کے خلیفہ کو بارہا قاضی کے سامنے پیش ہوکر اپنے عمل کی وضاحت کرنا پڑی، بعض اوقات تو اُنہیں جرمانے بھی ادا کرنے پڑے۔ اسلام عیسائیت کی طرح محض اخلاقی تعلیمات کا مجموعہ نہیں ہے، یہ زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی عطا کرتا ہے۔ ریاستی اُمور چلانے کے لئے اسلام کا اپنا ضابطہ حیات ہے۔ اسلام میں کلیسا کی طرح کوئی "Hierarchy" نہیں ہے جس میں پوپ، کا رڈینل، چیف بشپ، پادری یا فادر پر مبنی درجہ بہ درجہ کلیسائی نظم ہو۔ اسلام نے حکمرانی کا حق کسی مخصوص طبقہ کو تفویض نہیں کیا جو خدائی مشن کا نام لے کر اقتدار پر قابض ہوجائے اور اپنی من مانی کرتا پھرے۔ اسلام میں ہر وہ شخص اقتدار کی امانت کو سنبھال سکتا ہے جو اسلامی عقائد پر پختہ ایمان رکھتا ہو اور نظم مملکت کو قرآن و سنت کے ضابطے کے تحت چلانے کی اہلیت رکھتا ہو اور جسے عوام کا اعتماد بھی حاصل ہو۔ ٭ تھیوکریسی کا جو تصور قائد اعظم کے پیش نظر تھا، اس کی حمایت اسلامی دانشور بھی نہیں کرتے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اسلام کے سیاسی فلسفہ کا معمولی علم رکھنے والا کوئی فرد اس طرح کی ’تھیوکریسی‘کا اسلام میں وجود ثابت نہیں کرسکتا۔علامہ شبیر احمد عثمانی جو بہت بڑے عالم دین ہی نہیں ،تحریک ِپاکستان کے عظیم رہنما بھی تھے،اُنہوں نے۱۲/مارچ ۱۹۴۹ء کو قرار دادِ مقاصد کی منظوری کے بعد دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ’’اگر ہم دنیا کے سامنے ایک مثال قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ملک میں اسلامی نظام نافذ کرناہوگا۔ اسلام اس غلط نظریہ کو ہرگز تسلیم نہیں کرتا کہ مذہب صرف خدا اور بندے تک محدود |