۱۹۴۶ء کا ہے۔ یہ ان کا وہ معروف خطاب ہے جو اُنہوں نے ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں بھرپور کامیابی کے بعد مسلم لیگ کے منتخب اراکین پارلیمنٹ سے فرمایا۔ اُنہوں نے پاکستان کے قیام کی جدوجہد کے مقاصد بیان کرتے ہوئے فرمایا: "What are we fighting for? What are we aiming at? It is not theocracy, not for a theocratic state. Religion is there and religion is dear to us." ’’ہم کس چیز کے لئے لڑ رہے ہیں ؟ ہمارا نصب ُالعین کیا ہے؟ یہ مذہبی پیشوائیت (تھیوکریسی) نہیں ہے، نہ ہی تھیوکریٹک مملکت کا قیام ہمارا مقصود ہے۔ البتہ مذہب موجود ہے اور مذہب ہمیں بہت عزیز ہے۔‘‘ (ایضاً: جلد چہارم، صفحہ ۱۱۶) اس کے بعد کے جملوں کا اُردو ترجمہ ملاحظہ کیجئے : ’’جب ہم مذہب کی بات کرتے ہیں تو تمام دنیاوی مفادات ہیچ نظر آتے ہیں ۔ اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جوبہت زیادہ اہم ہیں ۔ ہماری معاشرتی زندگی، ہماری معاشی زندگی اور سیاسی اقتدار کے بغیر آپ کس طرح اپنے دین اور معاشرتی زندگی کا دفاع کرسکتے ہیں ۔‘‘ مسلمان اراکین اسمبلی کے نمائندۂ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر آپ نے ہندو رہنماؤں کے ’تھیوکریسی‘ کے مذکورہ بالا پراپیگنڈہ کا بھرپور جواب دیا۔ آپ نے واضح کردیا کہ پاکستان کے حصول کی ساری ان تھک جدوجہد کا مقصد اس ’تھیوکریسی‘کا قیام نہیں ہے جس کا تصور مسٹر منشی جیسے ہندو رہنماؤں کے دماغ میں ہے۔ اُنہوں نے اپنے اس بیان میں واضح طور پر کہا کہ ’تھیوکریسی‘ ان کا مقصود نہیں ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ مذہب یعنی اسلام اُنہیں عزیز نہیں ہے۔ اس بیان میں انہوں نے بیک وقت ’تھیوکریسی‘ سے اظہارِ بریت اور اسلام سے اظہارِ محبت فرمایا۔ آج جو دانشور قائداعظم کے بیانات کی من چاہی تاویلات کرتے ہیں اور مذہب بیزاری کو ہی لبرل ازم اور روشن خیالی سمجھتے ہیں ، اُنہیں قائداعظم کے اس بیان پر غور کرنا چاہئے۔ قائداعظم کا یہ بیان سیکولرزم کی واضح تردید پر بھی مبنی ہے۔ سیکولرزم میں مذہب اور ریاست کی یکجائی قبول نہیں کی جاتی، مگر قائداعظم نے دین اور معاشی زندگی دونوں کے تحفظ اور دفاع کے لئے سیاسی اقتدار کے حصول کو ضروری قرار دیا۔ |