Maktaba Wahhabi

38 - 79
واضح رہے کہ مسٹر منشی نے مندرجہ بالا الفاظ ۱۹۴۱ء میں لدھیانہ میں منعقد ہونے والی ’اکھنڈ ہندوستان کانفرنس‘ میں خطبہ صدارت دیتے ہوئے کہے۔ اُنہوں نے اس خطبہ میں یہ بھی کہا: ’’ کیا تمہیں علم ہے کہ نظریۂ پاکستان کا مفہوم کیا ہے؟ اس کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان اپنے لیے ایسے مساکن بنائیں جہاں زندگی اور طرزِ حکومت قرآنی اُصولوں کے سانچے میں ڈھل سکے اور جہاں اُردو ان کی قومی زبان بن سکے۔ مختصر الفاظ میں یوں سمجھئے کہ پاکستان مسلمانوں کا ایسا خطہ ارض ہو گا جس میں اسلامی حکومت قائم ہو گی۔ہندو قوم خواہ کتنی ہی بزدل اور غیر منظم کیوں نہ ہو وہ کبھی یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ مسلمان اس قسم کی حکومت قائم کر لیں ۔ اس حکومت میں ہندو قوم کے افراد شمشیر وسناں کا نشانہ بنائے جائیں گے۔ ان کی عورتوں کی عصمت دری اور ان کے مقدس مقامات کی بے حرمتی ہو گی۔‘‘(ماہنامہ طلوعِ اسلام، دسمبر ۱۹۴۱ء) ۱۴/نومبر ۱۹۴۰ء کے اداریے میں ’ہندوستان ٹائمز‘ نے تحریر کیا: ’’ تھیوکریسی کا تصور ایک داستانِ پارینہ ہے اور مسلمانوں کا یہ فعل عبث ہو گا، اگر وہ ہندوستان جیسے ملک میں اس کے احیا کی کوشش کریں ۔‘‘ قیامِ پاکستان کے مطالبہ کے شرمندۂ تعبیر ہونے میں اہم ترین رکاوٹ یہی اقلیتوں کے تحفظ کا مسئلہ تھا۔ بنگال، پنجاب اور سندھ میں ہندوؤں اور سکھوں کی آبادی کا تناسب معتدبہ تھا۔ کانگرسی رہنما مسلسل ان میں عدمِ تحفظ کے احساس کو اُبھار رہے تھے کہ قیامِ پاکستان کے بعد ان کے ساتھ ناروا برتاؤ کیا جائے گا۔ علمی اور منطقی اعتبار سے بھی یہ مسئلہ بے حد اہم تھا کیونکہ مسلم لیگ قائداعظم کی قیادت میں مذہب کی بنیاد پر علیحدہ ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہی تھی جس کی وجہ سے دوسرے مذاہب کے افراد کے دلوں میں وساوس کا پیدا ہونا ایک فطری امر تھا۔ ان کے جذبات کوبھڑکانا بھی مشکل نہ تھا۔ پاکستان کے منصوبہ کو سبوتاژ کرنے کے لئے کانگریس نے اس نفسیاتی کمزوری کو مؤثر ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۴۰ اور ۱۹۴۸ء کے دوران قائداعظم کی تقاریر میں اقلیتوں کو تحفظ کی یقین دہانی کا تذکرہ مسلسل ملتا ہے۔ ان کے ایسے بیانات جس میں اقلیتوں کے تحفظ کا مسئلہ مذکور ہے، کا بالواسطہ تعلق ’تھیوکریسی‘ کے متعلق کانگریسی پراپیگنڈے کے جواب سے ہے۔ 2. ’تھیوکریسی‘کے الفاظ کے ساتھ قائداعظم کا دوسرا بیان جو ریکارڈ پر ہے، وہ ۱۰/اپریل
Flag Counter