’’پس خواتین و حضرات! دیکھیں ہندو رہنما کیا کہہ رہے تھے؟ میں صرف ایک ممتاز سابقہ کانگریسی اور ایک سابق وزیرداخلہ مسٹر منشی کی تقریر سے ایک اقتباس پیش کروں گا۔ اخبارات میں شائع شدہ تقریر کے مطابق اُنہوں نے کہا: ’’ تجویز ِپاکستان کے تحت جو حکومت قائم ہوگی، وہ سول حکومت نہیں ہوگی جو تمام فرقوں پر مشتمل ایک مخلوط مجلس قانون ساز کے سامنے جواب دہ ہو بلکہ وہ ایک ’مذہبی حکومت‘(تھیوکریسی) ہوگی جس نے اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق حکمرانی کرنے کا عہد کررکھاہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ تمام لوگ جو اس مذہب کے پیروکار نہیں ہوں گے، ان کا اس حکومت میں کوئی حصہ نہ ہوگا۔ ایک کروڑ تیرہ لاکھ سکھ اور ہندو مسلمانوں کی مذہبی ریاست کے زیرسایہ اقلیت بن جائیں گے۔ یہ ہندو اور سکھ پنجاب میں عاجز ہوں گے اور ہند کے لئے غیرملکی۔‘‘ مسٹر منشی کے بیان کو پڑھنے کے بعد قائداعظم نے فرمایا: ’’کیا یہ ہندوؤں اور سکھوں کو مشتعل نہیں کیا جارہا؟ ان کو یہ بتاناکہ وہ ایک مذہبی ریاست ہوگی جس میں اُنہیں جملہ اختیارات سے تہی دست رکھا جائے گا، بالکل غیر درست بات ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں غیرمسلموں کے ساتھ اچھو توں کا سا سلوک کیا جائے گا۔ میں مسٹر منشی کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ صرف ان کے مذہب اور فلسفہ کی ہی اچھوتوں سے آشنائی ہے۔ اسلام ان غیر مسلموں کے ساتھ جو ہماری حفاظت میں ہوں ؛ عدل، مساوات، انصاف، رواداری بلکہ فیاضانہ سلوک کا قائل ہے۔ وہ ہمارے لئے بھائیوں کی طرح ہوں گے اور ریاست کے شہری ہوں گے۔ ‘‘ (تالیاں ) (قائداعظم: تقاریر و بیانات:۲/۵۱۹، شائع کردہ: بزمِ اقبال، ۲کلب روڈ لاہور) قائداعظم کی تقریر کے اس اقتباس کے آخری جملوں کا اُسلوب خالصتاً ایک مسلم متکلم کا سا ہے جوہندو مت کے مقابلے میں اسلام کے اقلیتوں کے ساتھ سلوک کو برتر اور اعلیٰ بنا کر پیش کررہا ہے، مگر الفاظ کا انتخاب مجادلانہ نہیں ۔ قائداعظم نے اپنی تقریر میں مسٹر منشی کے جس اخباری بیان کو پڑھ کر سنایا، وہ ۱۹۴۱ء کے دوران ہندو رہنماؤں کی طرف سے قیامِ پاکستان کے خلاف زہریلے پراپیگنڈہ کی بہترین ترجمانی کرتا ہے۔ قائداعظم کا جواب اسلام کے ریاستی فلسفہ کی مدبرانہ ترجمانی پر مبنی ہے۔ آپ نے بے حد خوبصورت انداز میں مستقبل کی اسلامی ریاست کے خلاف پیش کردہ خدشات کاجواب دیا۔ |