کو قتل بھی کرڈالا تھا۔ مذکورہ دلائل و براہین کے بعد یہ دعویٰ کرنے کی کیاگنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ قانون الٰہی یہی رہا ہے کہ کبھی کوئی رسول کسی قوم کے ہاتھوں قتل نہیں ہوا؟ متجددین کافکری تضاد متجددین حضرات کے ہاں فکری تضاد کی بہت فراوانی ہے۔ یہ لوگ ایک جگہ ایک بات کا اقرار کرتے ہیں تو دوسرے مقام پر اُسی کا انکار کردیتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ اپنی اس تضاد بیانی کو ’علم و تحقیق‘ کانام دیتے ہیں ۔ حدِ رجم کامعاملہ ہو یا اجماعِ اُمت کے کسی فیصلے کا، خبر واحد کی حجیت کی بات ہو یا صحیح احادیث کے واجب العمل ہونے کی۔ جہاد کی بحث ہو یا مرتد کی سزا کی، عورت کی گواہی کا معاملہ ہو یا اُس کی دیت کا… غرض یہ لوگ ہر جگہ فکری تضاد اور ذہنی انتشار کا شکارنظر آتے ہیں۔ اپنے من گھڑت اُصولِ دین کے ذریعے یہ حضرات پورے دین اسلام کا تیاپانچا کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔ دوسرے کو دھوکا دیتے اور حقیقت میں خود دھوکا کھاتے ہیں !! اب ہم ان کے فکری تضاد کو ان کے اپنے الفاظ میں واضح کریں گے۔ ان شاء اللہ 1. آلِ عمران کی آیت ۱۴۴ کی تفسیر کرتے ہوئے مولانااصلاحی صاحب لکھتے ہیں کہ ’’مطلب یہ ہے کہ جس طرح دنیا میں بہت سے رسول گزرے ہیں ، اسی طرح محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) بھی اللہ کے رسول ہیں ۔ جس طرح کی آزمائشیں اور مصیبتیں دوسرے رسولوں کو پیش آئیں، اسی طرح کی آزمائشیں اورمصیبتیں انہیں بھی پیش آسکتی ہیں۔ جس طرح تمام رسولوں کو موت کے مرحلہ سے گزرنا پڑا، اُنہیں بھی ایک دن وفات پانا ہے۔ ان کے رسول ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ وفات نہیں پائیں گے یا قتل نہیں ہوسکتے یاکسی مصیبت یا ہزیمت کااِبتلا انہیں پیش نہیں آسکتا۔ اگر کسی نے اس غلط فہمی کے ساتھ اسلام قبول کیا تھا اور اب اُحد کے حادثے کے بعد کسی تذبذب میں مبتلا ہوگیا ہے اور وہ از سرنو جاہلیت کی زندگی کی طرف پلٹ جانا چاہتا ہے تو پلٹ جائے، وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑے گا بلکہ اپنی ہی دنیا اور آخرت برباد کرے گا۔‘‘ (تدبر قرآن: ۲/ ۱۸۵،۱۸۶) اس سے معلوم ہوا کہ مولانا صاحب کے بیان کے مطابق یہ غلط فہمی ہے کہ کوئی رسول قتل |