استدراک حافظ حسن مدنی ’امامت ِ زن‘ ؛ پس پردہ جذبات کی ایک جھلک گذشتہ ماہ امامت ِزن کے مسئلہ پر محدث کا خصوصی شمارہ شائع کیا گیا جسے علمی ودینی حلقوں میں خوب پذیرائی ملی، بہت سے اہل علم نے فون پر یا خطوط کے ذریعہ اس کاوش کو سراہا۔ معروف سیرت نگار جناب قاضی سلیمان منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے قاضی حسن معز الدین نے راقم سے فون پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے امامت ِزن کے فتنہ کی مرکزی کردار اسریٰ نعمانی کے بارے میں بعض چشم دید تفصیلات بھی بیان کیں ۔ قاضی صاحب نہ صرف اسریٰ نعمانی کے والد اطہر نعمانی سے ملاقات رکھتے ہیں بلکہ اسریٰ سے ان کی دینی موضوعات پر گھنٹوں طویل بحثیں بھی ہوتی رہی ہیں ۔ محدث میں اسریٰ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے، اس سے اُنہوں نے اتفاق کرتے اپنا تاثر یوں پیش کیا کہ وہ دراصل ایک راہ گم کردہ عورت ہے، کاش کہ اسے کوئی اچھا اُستاد مل جاتا جواسلام کے متعلق اس کو درست طورپر سمجھا سکتا تو وہ آج اس مقام پر نہ کھڑی ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اس میں تلاش اور جستجو کا جذبہ بڑی شدت سے محسوس کیا ہے لیکن اس کا تجسس اس کے لئے گمراہی کا سبب بنا کیونکہ اس نے درست انداز میں سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ محدث کے شمارے کی اشاعت کے بعد عاصمہ جہانگیر کے رسالے جہد ِحق میں مجھے اسریٰ نعمانی کے بارے میں ایک مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا، جسے روزنامہ ڈان سے ترجمہ کرکے شائع کیا گیا ہے۔اس مضمون کو پڑھ کر بھی انہی خیالات کو تقویت ملی کہ اسریٰ منحرف خیالات کی مالک اور اعتدال وتوازن سے عاری عورت ہے۔اس مضمون کے یہ اقتباسات اس کی ذہنی حیثیت کی مزید عکاسی کرتے ہیں : ” عورت کی امامت کے واقعہ پر اپنے تاثرات کو بیان کرتے ہوئے اس نے کہا کہ یہ ایک خوبصورت عمل تھا، میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ اس واقعے کے بعد ذاتی طور پر میں نے یہ محسوس کیا کہ یہ نہایت بلندی پر لے جانے والا وقت تھا۔ مجھے اپنے عقیدے کے بارے میں ایسی ہی جذباتی کیفیت کا ادراک ہواجیسے میں یہ محسوس کروں کہ میری عمر 10 برس ہے۔ میں نے کبھی اس بات کا تصور بھی نہیں کیا تھا کہ یہ اس قدر آزادی بخشنے والا عمل ثابت ہوگایا اس سے ہمار ی جدوجہد کا اتنا بھر پور اظہار ہوگا،اس تجربے کے بعد اب میں کبھی مسجد میں عورتوں کے لئے مخصوص جگہ پر واپس نہیں جاسکتی۔ |