جن کے ہاں کوئی بچہ نہیں ہے۔ یاد رہے کہ رومانیہ میں شرحِ پیدائش 36ء1 بچے فی عورت ہے۔ چین میں جہاں آبادی کی شرح صرف 7ء1 بچے فی عورت ہے ، وہاں ایک گھرانہ ایک بچہ پالیسی کے نتیجے میں لڑکوں اور لڑکیوں کی آبادی میں شدید عدمِ توازن پیدا ہوچکا ہے۔ الٹرا ساوٴنڈ میں لڑکی آنے پراسقاط کرا دیا جاتا ہے اور یوں لڑکیوں کو ہلاک کرنے کی ظالمانہ رسم پھر لوٹ آئی ہے۔ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ 2020ء تک چین میں 4 کروڑ مرد کنوارے رہ جائیں گے اور چینی ماہرین کے مطابق اس کانتیجہ عصمت فروشی اور عورتوں کی ناجائز تجارت کی صورت میں نکلے گا۔ چینی حکومت اس پر فکرمند ہے اور مناسب اقدامات پر غور کررہی ہے۔ یہی صورت حال بھارت کی ہے، جہاں ویشوا ہندو پریشد آئے دن ہندووٴں سے کہتی رہتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں کیونکہ اعدادوشمار کی کمی ہورہی ہے۔ راجیو گاندھی کے دور میں آسام اور کئی دوسرے علاقوں میں مسلمانوں کی زبردستی فیملی پلاننگ اور نس بندی کی گئی تھی۔ روس جہاں چند سال قبل مسلمانوں کی آبادی 5 گنا بڑھ رہی تھی اور سلاوی اپنے آپ کو اقلیت میں جاتا محسوس کررہے تھے، چنانچہ روسی حکومت نے فوری اقدامات کئے۔ اب روسی عورتوں کے لئے کام لینے کے قوانین میں نرمی کی جارہی ہے۔ زچگی کی چھٹیوں میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ اوقاتِ کار کم کردیے گئے ہیں ۔ جن عورتوں کو شوہر میسر نہیں یا جو شادی نہیں کرنا چاہتیں ، اُنہیں تین تک حرامی بچے پیدا کرنے کو کہا گیا ہے۔ ہماری حکومت تو حلال بچوں پربھی دو کی پابندی لگا رہی ہے لیکن غیرمسلم ممالک حرامی بچوں کی تعداد بھی تین تک مقرر کرر ہے ہیں ۔ 1981ء میں جب ایک روسی عورت نے پندرہواں بچہ پیدا کیا تو حکومت نے اس کے والدین کو ایک بس تحفے میں دی۔ اس کے علاوہ بچے کی ماں کو ایک ڈاکٹر اور ایک نرس کی مفت خدمات فراہم کی گئیں ۔ یاد رہے کہ ان سب اقدامات کے باوجود روس کی شرح پیدائش 2003ء میں بھی 33ء1 بچے فی عورت سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنسی بے راہرویوں پر چلنے کے بعد واپسی اتنی آسان نہیں ہوتی۔ بہرحال مسلمانوں کے لئے اس میں مقامِ فکر ہے کہ کافر تو اپنی آبادی بڑھانے پر فکر مند ہیں لیکن ہم ہیں کہ بلا سوچے سمجھے اپنی آبادی گھٹائے جارہے ہیں ۔ وہ یہ بات بخوبی سمجھ گئے ہیں کہ جب آبادی کم ہوگی تو ملک کیلئے کام کرنیوالے نوجوان ہاتھ کم ہوں گے۔ بوڑھے زیادہ ہوں گے۔ اُلٹا انہیں پنشن اور مراعات زیادہ دینی پڑیں گی لیکن یہ مراعات بھی ٹیکسوں سے حاصل ہوتی ہیں اور جب کام کرنے والی آبادی ہی نہ ہوگی توٹیکس کن پر لگیں گے۔ اسکے علاوہ ملک کا دفاع کرنے کے لئے بھی نوجوان چاہئیں ۔ جب نوجوان ہی کم ہوں گے تو کوئی قوم اپنا وجود بھی برقرار نہ رکھ سکے گی۔ چنانچہ انہیں تو ان خطروں کا احساس ہے اور وہ فوری اقدامات کررہے ہیں لیکن مغرب کی تقلید میں گرفتار ہمارے حکمرانوں کو نجانے یہ بات کب سمجھ آئے گی؟ (مجلہ الدعوة: جون 2005ء: ص 31) |