پھیلائی گئی ہے۔ حالانکہ اس پراپیگنڈے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’اسلام اور ضبط ِولادت‘ میں اس موضوع پر مغرب کے طبی اور نفسیاتی ماہرین کے حوالے سے کافی روشنی ڈالی ہے۔ ڈاکٹر اوسوالڈ سکوارس کے حوالے سے لکھتے ہیں : ”یہ ایک ثابت شدہ حیاتیاتی قانون ہے کہ جسم کا ہر عضو اپنا خاص وظیفہ انجام دینا چاہتا ہے اور اس کام کو پورا کرنا چاہتا ہے جو فطرت نے اس کے سپرد کیا ہے۔ اگر کسی عضو کو اپنا کام کرنے سے رو ک دیا جائے تو لازماً الجھنیں اور مشکلات پیدا ہوکر رہتی ہیں ۔ عورت کے جسم کا بڑا حصہ بنایا ہی گیا ہے استقرارِ حمل اور عمل تولید کی انجام دہی کے لئے۔ اگر ایک عورت کو اپنے جسمانی اور ذ ہنی نظام کا یہ تقاضا پورا کرنے سے روک دیا جائے تو وہ اضمحلال اور اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی۔ “ ڈاکٹر الیکسز کارل کے حوالے سے لکھتے ہیں : ” وظائف ِتولیدی کی انجام دہی عورت کی صحت و تکمیل کے لئے ناگزیر ہے۔ یہ ایک احمقانہ فعل ہے کہ عورتوں کو تولید اور زچگی سے برگشتہ کیا جائے۔“ اگر ہم اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں تو مندرجہ بالا حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں اور واضح نظر آتی ہے کہ جن عورتوں کے بچے زیادہ ہیں وہ زیادہ صحت مند اور فٹ ہیں ، بہ نسبت ان کے جن کے ایک یا دو بچے ہیں ۔ ایک عورت اور ماں ہونے کے ناطے میں خود اس حقیقت کا مشاہدہ کرتی ہوں ۔ اللہ نے سات اولادوں سے نوازا اور الحمدللھ آج تک کسی مرحلے پر کسی بھی اَپ سیٹ سے سابقہ پیش نہیں آیا۔ اور آج عمر کی 50 کی دھائی میں ہونے کے باوجود الحمدللہ کسی سنجیدہ بیماری سے واسطہ نہیں پڑا، سوائے موسمی ہلکی پھلکی خرابیوں کے۔ ایسی بہت سی مثالیں میں اپنے ارد گرد اور اپنے خاندان میں دیکھتی ہوں ۔ اس کے برعکس جن کے ہاں دو یا تین بچے ہیں ، انہیں عموماً کسی نہ کسی بیماری سے دوچار دیکھا ہے۔ درحقیقت یہ بیماریاں ان مانع حمل ادویات اور ڈیوائسز کے استعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ ایک صاحب جن کے 6 بچے ہیں ، اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ دوسرے بچے کی پیدائش کے بعد لیڈی ڈاکٹر نے میری بیوی کو تیسری بار ماں بننے سے سختی سے منع کردیا اور کہا کہ اگر ایسی غلطی کرو گی تو مرجاوٴ گی۔ جب تیسرے بچے کا حمل ٹھہر گیا تو میری پریشان بیوی اس کے پاس گئی۔ لیڈی ڈاکٹر نے مجھے بلوایا، خوب لعن طعن کی اور بڑے وثوق سے کہا کہ زچہ |