ملازمین کی ترقی روکنے کا فیصلہ کیا ہے جو چار سے زیادہ بچے پیدا کرنے کے قصور وار ہوں گے۔جن استانیوں کے تین سے زیادہ بچے ہوں ، ان کو ولادت کے ایام کی رخصت سے مستثنیٰ قرار دینے کا فیصلہ بھی عمل میں لایا جارہا ہے۔ ٭ 1981ء میں امریکی آفیشل تھامس فرگوسن نے کہا: ہمیں آبادی میں اضافے کے فرق کو ہر حال میں کم کرنا ہے، چاہے حکومتیں ہمارے صاف ستھرے طریقوں سے کام کریں یا پھر دوسرے ( یعنی جبری) طریقوں سے۔ مندرجہ بالا تدابیر اختیار کرتے ہوئے آخر وہ اپنے مقاصد کو پانے میں کامیاب ہوئے اورجنوری 1991ء میں ’دی راک فیلرز پاپولیشن کونسل‘ نے اعلان کیا کہ فیملی پلاننگ کے ذریعے مسلم ممالک میں 40 کروڑ سے زیادہ پیدائشیں روک لی گئی ہیں اور اگلی صدی کے آخر تک ایک ارب 20 کروڑ پیدائشیں مزید روک لی جائیں گی، یہ ان کا ٹارگٹ ہے۔ ٭ پروفیسر نکولس ایبر سٹاڈجو ہارورڈ یونیورسٹی کے ’ادارۂ مطالعہ آبادی‘ کے محقق ہیں ، کہتے ہیں کہ ہمارے لئے اصل دردِ سردنیا میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ ٭ 1974ء میں امریکی صدر نکسن نے وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی،جس کا مقصدجو 2000ء تک امریکہ کو درپیش مشکلات کی نشاندہی اور پیش بندی کرنا تھا۔ ’رپورٹ 2000ء‘ نا می اس رپورٹ میں پاکستان، مصر، بنگلہ دیش، ترکی، نائیجیریااور انڈونیشیا میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو امریکہ کے لئے خطرہ قرار دیا گیا۔ ٭ 1992ء میں CIA کے ڈائریکٹر اینڈرے ایس کلائن نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ”دنیا کے وسیع رقبوں پرانہی اقوام کا اقتدار ہوگا جن کی آبادی وسیع ہوگی۔“ دوسرا اعتراض: زیادہ آبادی آلودگی کا باعث ہے! اس وقت دُنیا میں جو ماحولیاتی آلودگی پائی جاتی ہے ، اس کا ذمہ دار بھی یورپی ممالک کی طرف سے زیادہ آبادی کو ٹھہرایا جارہا ہے۔ اور اس اعتراض کو بنیاد بنا کر مسلم ممالک پر دباوٴ ڈالا جارہا ہے کہ اپنی آبادی کنٹرول کرو۔ اصل میں آبادی میں کمی کروانے کی وجوہات تو وہی ہیں جن کا تذکرہ سابقہ صفحات میں کیا گیاہے، یہ تو محض ایک خود ساختہ اعتراض ہے جبکہ ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ ماحول کو زیادہ نقصان آبادی میں اضافے کی وجہ سے نہیں بلکہ امیر |