کلچر ہے۔ اکیسویں صدی کو ایشیا میں عیسائیت کی صدی بنانا ہے۔“ صلیبیوں کی مسلمانوں کے لئے تویہ نصیحت ہے کہ ’آبادی گھٹاوٴ، خوشحالی بڑھاوٴ‘، ’بڑا گھرانہ، بڑا جنجال‘ ،’چھوٹا گھرانہ، تندرست و توانا‘ ،’کم بچے،خوشحال گھرانہ‘، مگر خود اپنے ہاں ’آبادی بڑھاوٴ، طاقت بڑھاوٴ‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔ ٭ اٹلی کے ایک قصبے کے میئر نے نوجوان کنواروں سے خطاب کرتے ہوئے تاکید کی کہ وہ شادی کریں یا پھر ’کنوارا ٹیکس‘ دینے کے لئے تیار ہوجائیں ، کیونکہ قصبے میں بچوں کی کمی کے باعث کئی سکول بند ہوگئے ہیں ۔ اہل مغرب اپنی ہمہ گیر کوششوں کے باوجود تاحال اپنے مقصد، یعنی اپنی آبادی کو بڑھانے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔اس سلسلے میں ان کی سب کوششیں بری طرح ناکام ہوچکی ہیں اُنہوں نے ایسا معاشرتی سیٹ اپ بنا لیا ہے کہ عورتیں بچے پالنااپنے لیے مصیبت سمجھتی ہیں ، سو انہوں نے اپنا سارا زور مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کی طرف لگا دیا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے درج ذیل طریقے اختیار کئے گئے : (1) میڈیا (ریڈیو، ٹی وی، اخبارات، رسائل، اشتہارات) سے سحرانگیز اور پرکشش پراپیگنڈہ (2) خوبصورت اداکاراوٴں اور مقامی لیڈی ڈاکٹروں کو اشتہاروں میں استعمال کیا گیا (3) مقبول قومی کھلاڑیوں اور سوشل ورکرز سے کام لیا گیا (4) ایجنٹ تنظیموں کے ذریعے پوسٹر لگائے اور پمفلٹ تقسیم کئے گئے (5) واکس(walks)کا اہتمام کیا گیا (6) حکومت کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے قرضوں کے ذریعے جکڑا دیا گیا اور انہیں فیملی پلاننگ کروانے پر مجبور کیا گیا اور مالی امداد کو برتھ کنٹرول سے مشروط کردیا۔ (7) مالیاتی پالیسیوں کے ذریعے مہنگائی پیدا کر کے عوام کے ذہنوں میں زیادہ بچوں کے بوجھ کا احساس پیدا کیا گیا (8) مقبول عام گانوں اور ورائٹی پروگراموں کے ذریعے بھی برتھ کنٹرول کی ترغیب دی جاتی ہے۔ (9) پراپیگنڈے کی اس ہمہ جہت مہم کی کامیابی میں بڑی رکاوٹ مسلم علما اور دانشور تھے۔ اس مسئلے کے حل کے لئے عالم اسلام کے ہر کونے میں ریسرچ کی گئی، مسلم علما کا جائزہ لیا گیا |