ہر طرح کی کوششیں کی گئیں ۔ ٹیسٹ ٹیوب بے بی اور کلوننگ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ تیزی سے گرتی ہوئی شرحِ پیدائش پر قابو پانے کے لئے صلیبی دنیا نے بڑے اقدامات کئے مثلاً حرام کی اولاد کو قانونی تحفظ دے کر حرامی بچے پیدا کرنے والی ماوٴں کوسہولتیں دی گئیں ۔ بغیر شادی کے ازدواجی تعلقات کو تسلیم کیا گیا۔ غیر ملکیوں کے ساتھ شادی کی حوصلہ افزائی کی گئی۔1984ء میں یورپی پارلیمنٹ نے ایک قرارداد پاس کی جس میں تمام ممبر ممالک سے کہا گیا کہ وہ ایسے اقدام کریں جس سے شرحِ پیدائش میں اضافہ ہوسکے۔ قرار داد میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیاگیا کہ 1960ء میں یورپی گورے پوری دنیا میں 8ء8 فیصد تھے۔ شرحِ پیدائش میں کمی کے باعث 2025ء میں صرف 2 فیصد رہ جائیں گے۔ اس سے عالمی سطح پر یورپ کا اثرورسوخ کم ہوجائے گا۔ یورپی یونین کے ممبر 16/ممالک نے اپنی آبادی میں اضافے کے لئے جو منصوبہ وضع کیا ہے ، اس کی رو سے 1960ء میں 60 سال سے اوپرلوگوں کی تعداد جو 18 فیصد تھی ، اسے 2050ء میں 36 فیصد کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے، 15 تا 59 سال کے یورپی لوگ 1960ء میں 59 فیصد تھے، جنہیں 2050ء میں کم از کم 48 فیصد تک لانا ہے۔15 سال سے کم عمر بچوں کی تعداد تب 23 فیصد تھی، جسے 16 فیصد تک لانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں یورپی حکومتوں نے اپنے عوام کو پرکشش ترغیبات بھی دی ہیں ۔ فرانس کی حکومت 800 ڈالر ماہانہ میٹرنٹی الاوٴنس دیتی ہے۔ جو خواتین تیسرے یاچوتھے بچے کو جنم دیتی ہیں ، انہیں تین برس تک معقول ماہانہ الاوٴنس ملتا ہے۔ جرمنی کی حکومت نئے جوڑوں کو مکان کی تعمیر کے لئے بلا سود قرضے فراہم کرتی ہے اور ہر نئے بچے کی پیدائش پر قرض کا ایک حصہ معاف کردیا جاتا ہے۔ یورپ کے دیگر ممالک میں بھی ’آبادی بڑھاوٴ‘ پالیسی پر عمل٭ ہورہا ہے۔ ٭ پوپ جان پال دوئم نے اپنے دورۂ بھارت کے دوران 7 نومبر 1999ء کو نہرو سٹیڈیم میں 50 ہزار عیسائیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا : ”اپنی آبادی کو کم کرنے کی کوشش نہ کریں ، بلکہ اضافہ کرتے رہیں ۔ بھوک اور غربت کی وجہ سے اسقاطِ حمل اور مصنوعی طریقوں سے افزائش نسل روکنا درست نہیں ۔ فیملی پلاننگ موت کا ٭ اس کی تفصیلات کے لیے اس مضمون کے آخر میں ضمیمہ ملاحظہ فرمائیں ۔ |