”وہ اس طرف بھرپور توجہ دیں اور مسلمانوں میں آبادی کے کنٹرول کواتنی ہی اہمیت دی جائے جتنی نئے تباہ کن ہتھیاروں کی تیاری پر دی جارہی ہے۔“ ٭ 1991ء میں ایک کتاب ’دی فرسٹ یونیورسل نیشن‘ میں امریکی کالم نگار واٹن برگ نے عالمی آبادی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ”یہ کہنے کے لئے ایک بلین وجوہات ہیں کہ مسلم اثرورسوخ بڑھے گا۔“ اس نے بتایا کہ 1950ء میں مسلمان ساڑھے سینتیس کروڑ تھے اور اکیسویں صدی کے اوّل میں یہ دو ارب ہوجائیں گے۔ مسلم قومیں تیز ترین رفتار سے بڑھ رہی ہیں ۔ واٹن برگ نے شکایتاً لکھا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایک عورت کے ہاں اوسطاً 7ء1 بچے پیدا ہوتے ہیں ، سوویت بلاک ممالک میں 2ء1، غیر مسلم ترقی پذیر ممالک میں 4ء5 جبکہ مسلمان قوموں میں 6 بچے ہوتے ہیں ۔ ٭ برطانوی فلاسفر برٹرینڈرسل نے اپنی کتاب ’میرج اینڈ مارلز‘ میں لکھا تھا کہ مغربی یورپ میں شرحِ پیدائش تیزی سے گر رہی ہے اور دنیا کی سفید فام آبادی جلد نیست ونابود ہو جائے گی، اس کے خیال میں ایشیائی لوگ زیادہ دیر رہیں گے اور افریقی ان سے بھی زیادہ۔ اس نے اہل مغرب کو نہ صرف شرح پیدائش بڑھانے کی ترغیب دی بلکہ غیر سفید فام قوموں کی آبادی کنٹرول کرنے کے لیے اقدام اٹھانے پر بھی زور دیا۔ ٭ ’ نارتھ کیرولینا سنٹر برائے تحقیق آبادی اور تحفظ‘ کے ڈاکٹر سٹیفن نے 1977ء میں اپنی کتاب ’پاپولیشن گروتھ کنٹرول‘ میں لکھا کہ دنیا کی آبادی کی تحدید کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔اب وسیع پیمانے پر لازماً مداخلت کرنا ہو گی کیونکہ ہماری بقا خطرے میں ہے۔ لہٰذامغرب کو خطرہ یہ ہے کہ اپنی تمام تر ٹیکنالوجی ، ہتھیاروں اور دولت کے باوجود اگر عددی لحاظ سے وہ کم ہوگئے تو ان کا یہ غلبہ زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکتا اور اکیسویں صدی کے وسط میں مسلمان تعداد کے لحاظ سے دُنیا میں سب سے بڑی قوم ہوں گے۔ آبادی کے اس فرق کو کم کرنے کے طریقے آبادی میں اضافے کے اس فرق کو کم کرنے کے صرف دو طریقے ہیں : اہل مغرب اپنی آبادی بڑھائیں یا پھر مسلمانوں کی آبادی کم کریں ۔اہل مغرب کے لئے اپنی آبادی بڑھانا ممکن نہیں کیونکہ ان کے ہاں شرحِ بار آوری ہی بہت کم ہے۔ اس شرح کو بڑھانے کے لئے |